اسلام آباد(سپیشل رپورٹر) خطے کے 4 ممالک نے افغان گروہوں سے جنگ بندی پر اتفاق کرنے، جلد از جلد امن مذاکرات شروع کرنے اور اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات لینے کا مطالبہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق مذکورہ مطالبہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور امن عمل کو درپیش مسائل سے متعلق پاکستان، ایران، روس اور چین کے مندوبین کے’ ورچوئل’ اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں تمام افغان گروہوں اور جماعتوں بشمول طالبان سے جلد از جلد انٹرافغان مذاکرات کی صورتحال کے مواقع پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا گیا، یہ اجلاس 18 مئی کو منعقد ہوا تھا اور مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اس میں شریک تمام چاروں ممالک بالترتیب اسی روز اعلامیہ جاری کریں گے، تاہم گزشتہ روز مبصرین کی جانب سے اعلامیہ جاری نہ کرنے کی نشاندہی کرنے پر پاکستان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا۔انٹرا افغان مذاکرات کے لیے تعاون پر زور دیتے ہوئے، چاروں ممالک جن کا افغانستان میں امن سے مشترکہ مفاد ہے انہوں نے کہا کہ افغان گروہوں کے درمیان مذاکرات ہی قومی مفاہمت کا واحد راستہ ہے جو طویل تنازع کو فوری طور پر ختم کرسکتا ہے۔یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے، قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا، تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا جاسکتا ہے، جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کی جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔
تبصرے بند ہیں.