گلوکار فضل حسین نے فلم ’’آغوش‘‘ سے کیرئیر کا آغاز کیا

لاہور: معروف گلوکار فضل حسین 1935ء میں پیدا ہوئے اور 57سال کی عمر میں 26ستمبر 1992ء کو وفات پا گئے۔ ان کی گائیکی کی شہرت ٹیکسالی دروازہ، چیت رام روڈ سے چھوٹی سی ذاتی دکان سے 1952ء میں ابھری تھی جہاں وہ کشیدہ کاری کا کام کرتے ہوئے گایا کرتے تھے، وہ کبھی چپ ہوتے تو احباب فرمائش کر دیتے جس پر وہ بلاججھک انھیں سنانے لگتے، ایسے موقعوں پر ان کے چچا اکثر انھیں ڈانٹتے ہوئے سمجھاتے ’’فضل بیٹا! اپنے کام میں دھیان رکھا کر دکان پر میلہ لگا لینا اچھی بات نہیں ہے‘‘۔تاہم فضل حسین کو گلوکاری کا شوق جنون کی حدوں تک لے آیا تھا جہاں انسان کو کسی کی پرواہ نہیں رہتی، فضل حسین ایک دن اسی طرح کام کرتے ہوئے گا رہے تھے کہ راہ چلتے شخص نے رک کر انھیں سنا اور جب وہ خاموش ہوئے تو ان سے پوچھا ’’بیٹا تمہیں گانے کا شوق ہے؟‘‘ جس پر انھوں نے کہا کہ مجھے پلے بیک سنگر بننے کا شوق ہے۔ وہ اجنبی شخص ماسٹر عنایت حسین تھے انھوں نے فضل حسین کو پنچولی اسٹوڈیو بلایا اور ان کی آواز کا ٹیسٹ لیا۔ اس موقع پر بیشمار لڑکے لڑکیاں وہاں پہنچے ہوئے تھے جن میں ایک فضل حسین اور دو لڑکیاں کامیاب ہوئیں۔ فضل حسین کا پہلا نغمہ 1953ء منور سلطانہ کے ساتھ فلم ’’آغوش‘‘ کے لیے ’’کسی کا نام شامل ہو گیا میری کہانی میں‘‘ اور ایک سولو گیت ’’ دنیا کا بھروسہ کیا، سورنگ بدلتی ہے‘‘ بیحد مقبول ہوئے۔ فلم کے ساتھ فضل حسین ریڈیو پر بھی گانے لگے اسوقت علی بخش ظہور، عبدالشکور بیدل، عنایت حسین بھٹی اور محمد یونس کا طوطی بولتا تھا، فضل حسین نے قلیل مدت میں اپنی لگن اور محنت کے باعث منفرد مقام حاصل کر لیا اور ان کا شمار جلد ہی اے کلاس گلوکاروں علی بخش ظہور اور عنایت حسین بھٹی میں ہونے لگا۔ دن رات ان کی مدھر آّواز سامعین کے کانوں میں سنگیت کا رس ٹپکانے لگی، اس ضمن میں سیکڑوں نغمات جن میں غزل، لوک گیت، عارفانہ، طربیہ، مزاحیہ گانے ان کے کریڈٹ پر ہیں۔فلم اور ریڈیو کے بعد جب این ای سی نے پہلے پہل منٹو پارک میں ٹی وی کی آزمائشی نشریات کا آّغاز کیا تو فضل حسین وہاں بھی پیش پیش تھے ان کے ساتھ سلیم رضا ، ایس ڈی باتش اور رنگیلا نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور یوں فضل حسین پاکستان ٹیلی ویژن کے ابتدائی گلوکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ فضل حسین نے ’’آغوش‘‘ ، ’’ طوفان‘‘، ’’گمنام‘‘ ، ’’ سازش‘‘ ،’’کچیاں کلیاں‘‘ ، ’’ مجرم‘‘ ، ’’ اسٹریٹ 77‘‘ ،’’شیخ چلی‘‘ ، ’’ جبرو‘‘ ، ’’ پینگاں‘‘ ، ’’ لکن میٹی‘‘ ،’’ دال میں کالا‘‘ ، ’’ دروازہ‘‘ ،’’ لٹ دا مال‘‘ ، ’’ڈولی‘‘ ، ’’ بھرجائی‘‘ ،’’ کالے لوگ‘‘ ، ’’ محبوبہ‘‘ ، ’’ نئی لڑکی ‘‘ ، ’’ دو راستے‘‘ ،’’صدائے کشمیر‘‘،’’ اعلان‘‘ ،’’ہڈ حرام‘‘،’’ گل بدن‘‘ ،’’ پنج دریا‘‘ ، ’’ جھیل کنارے‘‘ ، ’’ سہاگ‘‘ ، ’’ پتن‘‘، ’’ ولایت پاس‘‘ ، ’’ یار دوست‘‘ ، ’’ آئینہ‘‘ ، ’’ دیوار‘‘ ،’’سہیلی‘‘ ، ’’نگار ‘‘سمیت دیگر فلموں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ فضل حسین انا پرست اور خودار انسان تھے ، اپنی انھی دو خامیوں کے باعث آہستہ آہستہ وہ 1974ء میں فلم، ریڈیو اور ٹی وی سے الگ ہو گئے اور اگلے بیس برس انھوں نے گوشہ گمنامی میں گزارے۔ بہت سالوں بعد فضل حسین کے احباب، اقرباء اور پرستاروں نے ان پر زور دیا تو وہ دو آڈیوکیسٹیں تیار کرنے پر رضامند ہو گئے، یوں ان کا پہلا والیم 1992ء میں ریلیز ہوا اور دوسرا ہونا تھا کہ زندگی نے انھیں مہلت ہی نہ دی۔ فضل حسین کے پسماندگان میں چار لڑکیاں، دو لڑکے اور ہزاوروں پرستار شامل ہیں جنھیں ان کی باتیں، ان کی یادیں اور نغمات ہمیشہ تڑپاتے رہینگے۔

تبصرے بند ہیں.