افریقی شیروں کا شکار، کوچ نئے ہتھیار آزمانے کے خواہاں

لاہور: زمبابوے میں ہزیمت اٹھانے والے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ ڈیو واٹمور افریقی شیروں کا شکار کرنے کیلیے نئے ہتھیار آزمانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں کنڈیشنز مختلف ہیں، پلیئنگ الیون میں کئی تبدیلوں کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔ اے ایف پی کو انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ زمبابوے کے ہاتھوں شکست کے بعد شرمندگی، پریشانی اور مایوسی کا شدت سے احساس ہوا، البتہ نتائج پر کسی تشویش میں مبتلا نہیں،پروفیشنل اور 15سالہ انٹرنیشنل تجربہ رکھتا ہوں، دوسروں کی طرح غلطیاں مجھ سے بھی ہوتی ہیں، انھیں تسلیم اور اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں،ان کے مطابق ہرارے میں بیٹنگ اور بولنگ معیار کے مطابق نہیں تھی لیکن عوام کو سمجھنا چاہیے کہ میزبان ٹیم نے ہماری سوچ سے کہیں زیادہ فائٹنگ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، سخت مقابلوں سے ہمیں مضبوط جنوبی افریقی سائیڈ کے خلاف تیاریوں کا اچھا موقع مل گیا۔ تفصیلات کے مطابق غیر مستقل مزاجی کے حوالے سے مشہور پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھول بھلیوں میں کوچ ڈیو واٹمور بھی چکراتے نظر آرہے ہیں،ان کے 15سالہ تجربہ کی افادیت کہیں نظر نہیں آرہی، تنقید کے تیروں کی بارش ہر سیریز کے بعد استقبال کرتی نظر آتی ہے، اس صورتحال میں غیر ملکی کوچ دلبرداشتہ بھی دکھائی دیتے ہیں مگر اپنے پروفیشنل قد کاٹھ کو چھپانے کیلیے مختلف حیلے بہانے تلاش کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اے ایف پی کو انٹرویو میں انھوں نے کہاکہ ورلڈ نمبر ون جنوبی افریقہ سے سیریز کیلیے ہمیں اپنی پلیئنگ الیون نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگی۔ٹیم کمبی نیشن تشکیل دیتے ہوئے مستقل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے ٹیم کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے، زمبابوے نے توقعات سے زیادہ سخت حریف ثابت ہوکر ہمیں تیاری کا اچھا موقع فراہم کردیا، یو اے ای میں پروٹیز کی قوت اور کنڈیشنز دونوں مختلف ہوں گی،واٹمور نے کہا کہ زمبابوے کے ہاتھوں شکست پر احساسات کو بیان کرنے کیلیے شرمندگی، پریشانی اور مایوسی جیسے الفاظ موزوں ہوں گے، اس طرح کی کارکردگی پیش کرکے فتوحات نہیں حاصل کی جا سکتیں لیکن میں کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے وجوہات پر غور کرنا زیادہ ضروری سمجھتا ہوں،انھوں نے کہا کہ ہم بیٹنگ کے ساتھ بولنگ میں بھی توقعات کے مطابق پرفارم نہ کرسکے، دیکھا جائے تو ہم ایک ٹیسٹ میچ ہی ہارے لیکن زمبابوے سے شکست میرے لیے بھی عدم اطمینان کا باعث ہے۔ عوام کو سمجھنا چاہیے کہ میزبان نے ہماری سوچ سے کہیں زیادہ فائٹنگ اسپرٹ کا مظاہرہ کیا، اپنی کنڈیشنز میں وہ ہرگز ایسی کمزور ٹیم نہیں تھی کہ جسے آسانی سے زیر کیا جاسکے۔ ایک سوال پر کوچ نے کہا کہ مصباح الحق میں بہترین قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں، عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وہ خاصے کامیاب رہے ہیں،مختلف معاملات کو بڑی احتیاط سے منظم انداز میں سنبھالنا ان کے مزاج کا حصہ ہے، کپتان کوئی بھی فیصلہ بڑی سوچ بچار کے بعد کرتے ہیں، یہی چیز ان کی بیٹنگ میں بھی نظر آتی ہے، آغاز میں وہ تھوڑا وقت لیتے تاہم بعد ازاں ٹیم کیلیے اہم کردار ادا کرنے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں، لوگوں کیلیے تنقید کرنا آسان ہے لیکن 2013 کی انفرادی پرفارمنس میں مصباح کا کوئی ثانی نہیں۔ تنقید کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ لوگ جو بھی سوچیں، میرا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوسکتا، میں جانتا ہوں کہ کیا کرنا ہے، پروفیشنل کوچ کے طور پر کام کرتے ہوئے 15سال ہوگئے، کوئی بھی اتنا انٹرنیشنل تجربہ نہیں رکھتا۔ جب بھی کنٹریکٹ ختم ہونے کے قریب ہو،اس طرح کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں، معاہدے کی تجدید فریقین کی باہمی رضامندی سے ہی ممکن ہوگی، فی الحال میں اتنا کہوں گا کہ اپنا ہر کام نیک نیتی کے ساتھ کرتا اور دن کے اختتام پر مطمئن ہوکر چین کی نیند سوجاتا ہوں۔ نتائج پر کسی تشویش کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں پریشان نہیں ہوتا، ہر نئے دن صرف یہی سوچتا ہوں کہ ہم جو بھی کریں درست سمت میں ہو، دوسروں کی طرح غلطیاں مجھ سے بھی ہوتی ہیں، انھیں تسلیم کرتا ہوں، میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے صلاحیتوں کے مطابق انصاف کرسکوں۔

تبصرے بند ہیں.