عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں انتظامی کمزوریوں کی نشاندہی کردی۔آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ انتظامی خامیوں کی وجہ سے گزشتہ سال ٹیکس ہدف پورا نہیں ہوسکا، ایف بی آر کو بجٹ میں طے ہدف کے مقابلے 1.2 کھرب روپے کم ٹیکس ملا،آئی ایم ایف کے مطابق سیلز ٹیکس اور درآمدی ٹیکس میں سب سے زیادہ شارٹ فال رہا، آئی ایم ایف کے طے کردہ ریویو ہدف سے بھی 524 ارب روپے جمع ہوئے، 850 ارب روپے کی کمی، کم مہنگائی اور کم معاشی ترقی کی وجہ سے ہوئی۔ باقی 380 ارب روپے کی کمی انتظامی مسائل اور کمزور نفاذ کے باعث ہوئی۔آئی ایم ایف نے ٹیکس کیسز نمٹائے جانے میں تاخیر کی بھی نشاندہی کر دی تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2004،25 میں گزشتہ سال کی نسبت ٹیکس وصولی میں 26 فیصد بہتری آئی۔دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بغیر جواز آمدن کم ظاہر کرنے پر قانونی کارروائی کا عندیہ دیدیا۔ ایف بی آر نے ایکسپورٹرز کے ٹیکس گوشواروں کی جانچ کی ہدایت کر دی، بڑے شہروں کے 10سے 30 بڑے ایکسپورٹرز کی نشاندہی کا حکم دیدیا۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے بڑے برآمد کنندگان فہرست میں شامل ہیں۔ایف بی آر کے مطابق ٹیکس نظام میں تبدیلی کے بعد ایکسپورٹرز نےقابل ٹیکس آمدن کم ظاہر کی ہے، اسکروٹنی کا فیصلہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 154 میں ترمیم کے بعد کیا گیا، فنانس ایکٹ کے تحت برآمدی آمدن پر فائنل ٹیکس کے بجائے کم ازکم ٹیکس نافذ ہے۔بڑے برآمدکنندگان کی قابل ٹیکس آمدن میں اچانک کمی پر ایف بی آر نے اظہار تشویش کیا ہے، فیلڈ فارمیشنز کو برآمدکنندگان کے گوشواروں کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کردی گئی، یکم جنوری 2026 تک مشکوک ایکسپورٹرز کی تفصیلات ایف بی آر کو جمع کرانے کی ہدایت کردی گئی۔
تبصرے بند ہیں.