ڈالر کی غیر حقیقی قدر بڑھانے والے بینکوں کیخلاف کارروائی کا فیصلہ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے غیر حقیقی انداز میں ڈالر کی قدر بڑھانے والے بینکوں کے خلاف کارروائی اور جرمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق 28 ستمبر کو اسٹیٹ بینک کی انسپیکشن ٹیموں نے 7 بینکوں کے ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے معائنے کے دوران بعض ثبوت تحویل میں لے لیے تھے جن کی روشنی میں تحقیقات کا دائرہ آگے بڑھایا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لیے مذکوہ بینکوں کو پہلے ہی صدر دفاتر اور ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کھلے رکھنے کی ہدایت جاری کردی گئی تھی۔ معائنے کے دوران لیجرز، ٹریڈنگ دستاویزات اور مستقبل کے سودوں کی جانچ پڑتال کی گئی جس سے ثابت ہوا کہ 26 ستمبر کو کئی ایل سیز 110 روپے میں میچور کی گئیںجبکہ انٹربینک میں صرف ایک روز قبل ڈالر کی قدر زیادہ سے زیادہ 107 روپے تھی یعنی صرف ایک روز میں ڈالر کی قدر میں 3 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ُاس تاریخ ساز دن یہ اضافہ 4 سے 5 روپے کا تھا کیونکہ کئی بینکوں میں ایک ڈالر کی 113 روپے تک کی آوازیں بھی آئیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر ہارون اگرکا کہنا ہے کہ جمعے کے پہلے سیشن میں جب ہمیں 113 روپے کا ریٹ ملا تو حقیقتاً ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ ہر سطح پر ڈالر کی مختلف قیمتوں کی پیشگوئی تو کی جارہی تھی مگر یہ اندازہ نہیں تھا کہ صرف ایک روز میں اس طوفان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اور نہ ہی گورنر اسٹیٹ بینک یاسین انور ملک میں موجود تھے، اسٹیٹ بینک کی مداخلت کے بعد صورتحال اسی دن بہتر ہوگئی مگر طوفان نے سب کو ہلاکر رکھ دیا۔ ٹریژری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہوں کو اگلے روز ہی متنبہ کردیا گیا۔

تبصرے بند ہیں.