چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل اڈیالہ جیل میں ہوگا، عدالت کا فیصلہ

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی سکیورٹی رپورٹ کی روشنی میں چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل جیل میں ہوگا۔سائفر کیس میں چیئرمین تحریک انصاف اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے یا نہ کرنے سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی۔اس موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر، ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور اور ذوالفقار عباس عدالت میں پیش ہوئے، چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی عدالت پہنچیں۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج دو مختلف معاملات عدالت میں ہیں، امید تھی چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کریں گے لیکن نہیں کیا گیا، یہ ریکارڈ کیس ہے اتنی رفتار سے کبھی کیس نہیں چلا ۔اس دوران جج ابوالحسنات نے عدالتی عملے کو کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔دوران سماعت جیل حکام نے چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالت میں پیشی سے متعلق رپورٹ پیش کی جس کا جج نے جائزہ لیا اور کہا کہ جیل حکام کا کہنا ہے کہ چیئرمین کو پیش نہیں کرسکتے، اسلام آباد پولیس کو اضافی سکیورٹی کیلئے خط لکھا اور بتایا گیا چیئرمین پی ٹی آئی کو سکیورٹی خدشات ہیں۔سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے اسلام آباد پولیس کی رپورٹ بھی جیل رپورٹ کےساتھ منسلک کی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا جیل حکام کی ذمہ داری ہے، جیل حکام ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کرنا نظر انداز نہیں کر سکتے، جیل سماعت کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دے دیا ہے۔سلمان صفدر نے استدعا کی کہ اگر سکیورٹی تھریٹ ہیں تو اس کیس پر سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی جائے، جیل میں کیس نہیں چل سکتا تو یہاں بھی یہ چلانا نہیں چاہ رہے پھر ملزمان کو ضمانت دے دی جائے۔دریں اثنا شاہ محمود قریشی کے وکیل علی بخاری نے اپنے دلائل کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کا لیٹر ایف آئی اے پراسیکیوٹر شاہ خاور نے خود پڑھا ہے، شاہ محمود قریشی کو کیوں ابھی تک پیش نہیں کیا گیا؟علی بخاری نے شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ اوپن ٹرائل ہے ملزم کو عدالت میں پیش کرنا ضروری ہے، ملزمان کی پروڈکشن کروانا عدالت کی ذمہ داری ہے، اگر عدالتی احکامات نہیں مانے جاتے تو سرکاری ملازم کو جیل میں بھیجنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔شاہ محمود قریشی کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ عدالت مناسب آرڈر کرے گی، کیا عدالت نے ملزمان کو طلب کیا تھا؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ آپ نے ملزمان کو طلب کیا تھا۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جیل میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے، عدالت میں جیل حکام نے دستاویزی شواہد کے ساتھ بتایا کہ سکیورٹی خدشات کی بنیاد پر پیش نہیں کر سکتے۔جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو فرق نہیں پڑتا کہاں ٹرائل ہوگا، عدالت چاہتی ہے کہ جو ٹرائل کو دیکھنا چاہے اس کیلئے کیا کریں گے، سیکشن 352 کا اطلاق کرنا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔علی بخاری نے استفسار کیا کہ شاہ محمود قریشی کی حد تک کوئی خط و کتابت نہیں، اُن کو پیش کیوں نہیں کیا گیا؟سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے استفسار کیا کہ یہاں کون سا ایسا واقعہ ہوا جس سے کہیں کوئی تھریٹ ہے، روزانہ اڈیالہ جیل سے دہشتگردوں کو لایا جاتا ہے، اب یا تو پیش کیا جائے یا ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ ہونے پر متعلقہ آئی جی کو طلب کیا جانا چاہیے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کام نہیں ہے کہ وضاحتیں دیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جیل سپرنٹنڈنٹ کے درمیان خط و کتابت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔دریں اثنا عدالت نے فریقین کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا، جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ریمارکس دیئے کہ اس حوالے سے آرڈر پاس کروں گا۔بعدازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی سکیورٹی رپورٹ کی روشنی میں جیل میں ٹرائل ہوگا جو اوپن ہوگا، میڈیا اور پبلک کو بھی شرکت کی اجازت ہوگی، پہلے کی طرح پانچ پانچ فیملی ممبران کو بھی اجازت ہوگی، سائفر کیس کی آئندہ سماعت جمعہ کو اڈیالہ جیل میں ہوگی۔

تبصرے بند ہیں.