پاکستان کی پارلیمنٹ یا خانہ بدوشوں کی بستی

ہلی بار کسی تنظیم کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں ڈیرے ڈال لئے، ایوان کا تقدس قائم رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ پارلیمنٹ کا سیاستدانو ں سے خاموش سوال لیکن جواب کون دے گا۔

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پارلیمنٹ کمپلیکس کا افتتاح 28 مئی 1986ء کو ہوا تھا جس کی شاندار بلڈنگ تیار ہوئی لیکن کیا معلوم تھا کہ پارلیمانی تاریخ کا ایک انوکھا احتجاج ہوگا اور پارلیمان کا تقدس پامال ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے مقدس ایوان کا سبزہ زار نہیں بلکہ خانہ بدوشوں کی بستی ہے جو کہ کچھ دن قیام کے بعد شاید اگلی منزل پر رواں دواں ہوجائیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے انقلاب اور آزادی مارچ کے بعد صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ 14 اگست کو لاہور سے چلنے والے قافلے 16 اگست کو اسلام آباد آبپارہ کے قریب پڑاﺅ ڈالتے ہیں جہاں 3 روز کے قیام کے بعد ریڈ زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور پولیس کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی انقلاب اور آزادی مارچ کے دھرنے کو 18 دن ہوتے ہیں تو یہ اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھتے ہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری مذاکرات سے انکاری ہوتے ہوئے وزیراعظم ہاﺅس کی جانب بڑھنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی تلقین کرتے ہیں کہ کارکن پُرامن رہیں لیکن پولیس کے اہلکاروں کو کارروائی نہ کرنے کی التجا بھی کی جاتی ہے۔ پُرامن کارکنوں کے پاس کرین جیسی سہولت بھی موجود تھی۔ کرین جیسے ہی سٹیبلشمنٹ ڈویژن کی عمارت کے پاس لگے کنٹینرز کو ہٹاتی ہوئے مزید آگے بڑھتی ہے تاکہ آخری رکاوٹ عبور کرکے وزیراعظم ہاﺅس کی جانب گامزن ہو لیکن پولیس کی جانب سے وارننگ کے بعد بالآخر شیلنگ شروع ہو جاتی ہے جس کے باعث غصے میں آکر کارکنان وزیراعظم ہاﺅس کی بجائے پارلیمنٹ کا رخ کرتے ہیں اور ایک ٹرک کی مدد سے 30 اگست کی رات عین اس جگہ سے پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑ کر پارلیمان کا تقدس پامال کرتے ہیں جہاں کچھ دیر قبل ڈاکٹر طاہر القادری کا کنٹینر موجود تھا اور ہزاروں کارکنان پارلیمنٹ کے سبزہ زار میں پہنچ جاتے ہیں جوکہ اب ایک خیمہ بستی کا منظر پیش کر رہی ہے۔ –

تبصرے بند ہیں.