پاکستان کرکٹ ٹیم میں سلیکشن کیسے ہوتی ہے؟

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی ہوں یا کوئی اور، فرق کچھ نہیں پڑے گا کیونکہ سفارش اور پرچی پر کھلاڑیوں کی سلیکشن ہوتی رہے گی۔ اس کی نئی مثال اس بار بھی سامنے آئی ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق  پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سیلیکشن کے اصل فیصلے کپتان اور کوچ کرتے ہیں اور کرکٹ بورڈ کے چیئرمین حضرات بھی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ رہے سیلیکٹرز تو وہ بیچارے ہومیوپیتھک کی گولیاں ہیں جو فائدہ نہیں پہنچاتیں تو نقصان دہ بھی نہیں ہیں۔ وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل کی پاکستانی ٹیم میں واپسی ایک بار پھر سب سے زیادہ حیرانی کا سبب بنی ہے جنہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔ کامران اکمل کو سیلیکٹروں نے اس دلیل کے ساتھ ٹیم میں دوبارہ جگہ دی ہے کہ وہ اوپنر ہیں اور ضرورت پڑنے پر کسی بھی نمبر پر خود کو ایڈجسٹ کرسکتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ سلیکشن چہرہ دیکھ کر ضرور کیا گیا ہے لیکن کارکردگی ہرگز نہیں دیکھی گئی ہے۔ اس سیزن میں کامران اکمل نے فرسٹ کلاس میچوں میں 641 اور ون ڈے کپ میں 263 رنز سکور کیے لیکن جس فارمیٹ یعنی ٹی ٹوئنٹی میں ان کا سلیکشن ہوا ہے اس میں ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ کامران اکمل نے ڈپارٹمنٹس کے ٹی ٹوئنٹی کپ کے تین میچوں میں صرف 22 رنز بنائے ہیں جس میں بہترین انفرادی سکور 17 رنز ہے۔ اسی طرح ریجن کے ٹی ٹوئنٹی کپ میں ان کے تین میچوں میں بنائے گئے رنز کی تعداد صرف 58 ہے جس میں بہترین انفرادی سکور  کامران اکمل نے ڈپارٹمنٹس کے ٹی ٹوئنٹی کپ کے تین میچوں میں صرف بائیس رنز بنائے ہیں جس میں بہترین انفرادی سکور سترہ رنز ہے اسی طرح ریجن کے ٹی ٹوئنٹی کپ میں ان کے تین میچوں میں بنائے گئے رنز کی تعداد صرف58 ہے جس میں بہترین انفرادی سکور صرف30 رنز ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کارکردگی کامران اکمل کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شمولیت کو حق بجانب ثابت کرتی ہے؟ غور طلب بات یہ ہے کہ جس ٹی ٹوئنٹی کپ میں کامران اکمل صرف 22 رنز بناکر سب کی آنکھ کا تارہ بنے ہیں، اسی ٹورنامنٹ میں وکٹ کیپر سرفراز احمد نے کسی بھی بیٹسمین کے سب سے زیادہ 250 سکور کیے جن میں تین نصف سنچریاں شامل تھیں۔ لیکن چونکہ وہ ٹی ٹوئنٹی کپتان کی گڈبک میں نہیں ہیں لہٰذا ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔

تبصرے بند ہیں.