پاکستانی روپے کوپھر سٹے بازی کا سامنا ہے،اسٹیٹ بینک

کراچی:  اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ پاکستانی روپے کو چند دنوں سے ایک بار پھر سٹے بازی کے دباؤ کا سامنا ہے۔

اس ضمن میں تنقیدی آرا یک رخی ہیں، ان میں پاکستان کی موجودہ کارکردگی اور بحیثیت مجموعی اقتصادی استحکام کو پیش نظر نہیں رکھا جا رہا مزید یہ کہ موڈیز جیسے اداروں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان میں اجاگرکی گئیں معیشت کی خوبیوں کو باآسانی نظر انداز کر دیا گیا ہے، شرح مبادلہ کی موجودہ سطح بڑی حد تک ملکی اقتصادی اشاریوں کے مطابق ہی ہے۔

یہ ملک کی بہتر بیرونی صورتحال کے ساتھ ہم آہنگ ہے جسے بیرونی جاری حسابات کا خسارہ پست رکھ کر ملک کے مجموعی توازنِ ادائیگی میں سرپلس اور زرمبادلہ ذخائر کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر رکھ کر حاصل کیا گیا، اسٹیٹ بینک توقع کرتا ہے کہ ملک کی بیرونی پوزیشن متواتر مستحکم ہو گی اور اسٹیٹ بینک بازارمبادلہ میں استحکام کو یقینی بنانے کی غرض سے کسی بھی اقدام کے لیے تیار ہے، یہاں واضح رہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضے درحقیقت کم ہوئے ہیں۔

یہ مالی سال2010 میں جی ڈی پی کا 33 فیصد تھے جو مالی سال2015 کے اختتام پر گھٹ کر 23 فیصد رہ گئے، اسی طرح برآمدات میں جمود کے باوجود بیرونی قرضے اور برآمدات کا باہمی تناسب مالی سال2010میں 300 فیصد تھا جو مالی سال 2015 میں گر کر 255 فیصد پر آ گیا۔ مرکزی بینک کے مطابق موڈیز نے ساختی اصلاحات پر پاکستانی پیشرفت کو بھی سراہا، جاری حسابات کے خسارے میں کمی اور سرمایہ کھاتے میں سرپلس کے باعث پاکستان کے توازن ادائیگی کی بحیثیت مجموعی صورتحال نے بیرونی تحفظ کو مضبوط کیا ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرِ مبادلہ ذخائر اس وقت 15 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو 4 ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں، یہ 2013 کے مقابلے میں نمایاں بہتری ہے جب زرِ مبادلہ ذخائر صرف 3.9 ارب ڈالر تھے، زرِ مبادلہ ذخائر میں اضافہ نجکاری سے حاصل رقوم، تیل کے گرتے نرخوں اور کارکنوں کی بڑھتی ترسیلات کے ماحول میں انٹربینک مارکیٹ سے اسپاٹ خریداریوں، اتحادی سپورٹ فنڈ اور کثیر طرفہ و دوطرفہ رقوم کی آمد کے علاوہ بیرونی قرضوں سے بھی ہوا جس میں بین الاقوامی سرمایہ مارکیٹ سے لی گئی رقوم بھی شامل ہیں۔

تبصرے بند ہیں.