ٹیلی کام کمپنیوں نے ٹاورز لگانے میں دشواریوں کو تھری جی کیخلاف سازش قرار دیدیا

کراچی: ملک میں کام کرنے والی پانچ ٹیلی کام کمپنیوں نے لوکل اتھارٹیز کی حدود میں موبائل ٹاورز کی تنصیب کی راہ میں حائل دشواریوں کو سروس کوالٹی اور تھری جی ٹیکنالوجی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن ایکٹ 1966کے سیکشن 27-Aکے تحت موبائل کمپنیوں کے لیے رائٹ آف وے (بی ٹی ایس ٹاورز کی تنصیب) یقینی بنانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پانچوں ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن کو جولائی کے پہلے ہفتے میں ارسال کردہ خط کے ذریعے کنٹونمنٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز میںموبائل ٹاورز کی تنصیب کے لیے این او سی کے حصول میں درپیش مشکلات اور بھاری چارجز سے پیدا ہونے والے مسائل کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ لوکل اتھارٹیز کے زیر انتظام علاقوں میں رائٹ آف وے سے متعلق مسائل حل کیے بغیر تھری جی ٹیکنالوجی کی کامیابی مشکل ہے۔ٹیلی کام کمپنیوں کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ ایز کی جانب سے ٹاور کی تنصیب کی این او سی کے لیے بھاری فیس اور دیگر چارجز لاگو کیے جانے سے ایک جانب سروس کا معیار داؤ پر لگ رہا ہے دوسری جانب ٹاور کی تنصٰب کی لاگت بڑھنے سے ٹیریف میں اضافہ بھی ناگزیر ہوتا جارہا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ڈی ایچ ایز اور کنٹونمنٹ (لوکل اتھارٹیز) میں نصب شدہ ٹاورز کو نقصان پہنچنا معمول بن چکا ہے اور صرف نصب شدہ ٹاورز کو محفوظ اور آپریشنل رکھنے کے لیے موبائل کمپنیاں لوکل اتھارٹیز کو ایک ارب روپے سالانہ اضافی رقم ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ تھری جی، فور جی یا ایل ٹی ای جیسی مستقبل کی ٹیکنالوجیز کے کامیاب رول آؤٹ میں بھی مسائل کا سامنا ہے، تھری جی ٹیکنالوجی پہلے ملک کے بڑے شہروں میں متعارف کروائی جائیگی، بڑے شہروں میں تھری جی کے خواہش مند کسٹمرز کی بڑی تعداد لوکل اتھارٹیز کے زیر انتظام علاقوں میں رہائش پذیر ہیں تھری جی ٹیکنالوجی کے لیے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹیز اور کنٹونمنٹ میں کیپسٹی سائٹس نصب کرنا ہوں گی، اگرچہ موبائل فون کمپنیاں رول آؤٹ پلان کے لیے لوکل اتھارٹیز کے ساتھ مقدمے بازی میں مصروف ہیں لیکن یہ مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں تھری جی ٹیکنالوجی کی آمد اور رول آؤٹ کے آغاز کی صورت میں ان مسائل کی شدت میں مزید اضافے کا سامنا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.