لاہور(نیوز ڈیسک) سوشل میڈیا کے معروف پلیٹ فارم ‘فیس بک’ کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اس کی سروسز احتجاج کے باعث بند کردی گئی ہیں۔
بنگلہ دیش میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے خلاف مذہبی سیاسی جماعتوں سے منسلک ہزاروں افراد کا احتجاج جاری ہے، جس دوران پولیس کی فائرنگ سے متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کی طرف سے فیس بک کی بندش سے متعلق کوئی بیان نہیں آیا، تاہم ماضی میں اس نے احتجاج اور مظاہروں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔
چٹاگانگ شہر میں مظاہرین کی جانب سے پولیس اسٹیشن پر مبینہ حملے کے بعد پولیس کی فائرنگ سے حفاطت اسلام کے 4 کارکنان ہلاک ہوگئے تھے۔
دارالحکومت ڈھاکا میں گزشتہ پولیس نے جھڑپوں کے دوران مظاہرین کے خلاف آنسو گیس اور ربر کی گولیاں استعمال کیں جس سے درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔
فیس بک نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘بنگلہ دیش میں ہماری سروسز کی بندش سے آگاہ ہیں، ہم صورتحال کو مزید سمجھنے کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہمیں جلد از جلد سروسز کی مکمل بحالی کی امید ہے’۔
فیس بک نے بیان میں مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں جس طرح اس کی سروسز بند کی گئیں اسے اس پر سنگین خدشات ہیں، حالانکہ اس وقت کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے مواصلات کا موثرنظام ضروری ہے’۔
ہفتہ کو حفاظت اسلام اور دیگر مذہبی گروپوں کے ہزاروں کارکنان نے چٹاگونگ اور ڈھاکا کی سڑکوں پر اپنے حامیوں کی ہلاکت کے خلاف مارچ کیا۔
چٹاگونگ میں ریلی میں شریک گروپ کے سیکریٹری عزیزالحق نے بتایا کہ ‘پولیس نے ہمارے پرامن حامیوں پر فائرنگ کی اور ہم اپنے بھائیوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے’۔
حفاظت اسلام نے ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے اتوار کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی چٹاگونگ میں پولیس کی فائرنگ پر تنقید کی۔
ادارے کے جنوبی ایشیا کے ریسرچر سلطان محمد زکریا نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘پرامن احتجاج کے حق بالخصوص کورونا وبا کے دوران منظم حملے کیے گئے’۔
واضح رہے کہ نریندر مودی گزشتہ عالمگیر کورونا وبا کے بعد اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر جمعہ کے روز ڈھاکا پہنچے تھے۔
وہ بنگلہ دیش کی آزادی کے 50 سالہ جشن میں شرکت کے لیے دو روزہ دور کر رہے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.