متحدہ ن لیگ قربت، سیاست میں مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے صدارتی انتخاب میں ن لیگ کے امیدوار ممنون حسین کی حمایت کے بعد دونوں جماعتیں میں قربت بڑھنے کے عمل کو’’سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا‘‘ کا عملی نمونہ قرار دیا جارہا ہے۔ سیاست میں ماضی کے دوست حال کے دشمن اور ماضی کے دشمن حال کے دوست بن جاتے ہیں، اسی طرح ن لیگ اور ایم کیو ایم کی موجودہ قربت سے قبل دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک دوسرے کے ساتھ معاندانہ رویہ عیاں رہا ہے۔ سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران لندن میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں جن نکات پر اتفاق ہوا تھا ان میں ن لیگ کی طرف سے ایک نکتہ یہ بھی شامل کیا گیا تھا کہ کانفرنس میں شریک کوئی بھی جماعت مستقبل میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔کیوں کہ ایم کیو ایم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف کی اتحادی تھی۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زیر گردش ہے کہ اس وقت پیپلزپارٹی ہی وہ جماعت تھی جس نے اس نکتے پر اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاست میں دروازے کھلے رکھنے پڑتے ہیں اور اس نے آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں قائم ہونے والی آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شمولیت سے انکار کردیا تھا۔ اس کے علاوہ 90کے عشرے کے دوران نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں متحدہ قوومنٹ کے حلقے اب تک اس آپریشن کلین اپ کی ٹیسیں محسوس کرتے ہیں جس میں متحدہ کے ہزاروں کارکنوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ تاہم اس آپریشن کے باوجود ایم کیو ایم نے 1997ء میں بننے والی ن لیگ کی حکومت میں شمولیت اختیار کر لی تھی، تاہم یہ اتحاد صرف 6 مہینے قائم رہ سکا تھا اور حکیم سعید کے قتل کے بعد اتحاد ختم کرکے سندھ میں گورنر راج نافذ کر کے ایک بار پھر ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن کیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں جماعتوں کی موجودہ قربت ابھی تک حکومتی اتحاد تک تو نہیں پہنچی تاہم اسی جانب بڑھ رہی ہے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ اتحاد کب تک چل سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.