متحدہ نے ممنون حسین کی حمایت کرکے سیاسی تنہائی ختم کرلی

کراچی: 11 مئی کے عام انتخابات کے کچھ عرصے بعدایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری اور ن لیگ کے رہنما اسحاق ڈار کے درمیان ممکنہ اتحادپر بات ہوئی تھی۔ جس میں دونوں نے اتفاق کیاتھا کہ یہ ایک آسان کام نہیں ہوگاکیونکہ نواز شریف اور الطاف حسین ایک دوسرے سے بات نہیں کرناچاہتے تھے۔پچھلے کچھ عرصہ سے نواز شریف کے سندھ کے قوم پرستوں سے قریبی تعلقات ہیں اوروہ ایم کیو ایم کوتنہا کرناچاہتے ہیں،دوسری طرف متحدہ کا 1992 اور 1998 میں ن لیگ کے حوالے سے تلخ تجربہ رہاہے۔ایم کیو ایم سابق صدرپرویز مشرف کی بھی قریبی اتحادی رہی اوراب بھی اس کیلیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ایم کیو ایم نے عام انتخابات میں کامیابی پر نواز شریف کو مبارکباد دے کر تعلقات بہتر کرنے کی پہلی کوشش کی مگرن لیگ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔جس کے بعدبابر غوری نے اسحاق ڈار سے رابطہ کیااور نواز شریف کی طرف سے برف پگھلنے کاکوئی اشارہ دینے کا مطالبہ کیاجس کے بعد ایم کیو ایم کے وفد کی نوازشریف سے ملاقات کااہتمام کیاگیا۔نواز شریف نے اسحاق ڈار کو ایم کیو ایم کے ساتھ رابطہ رکھنے کاٹاسک دیا ہے مگروہ خود اب بھی الطاف حسین سے ٹیلیفون پر بات کرنے کو تیارنہیںمسلم لیگ(ن)کی مرکزی قیادت میں ایک گروپ لندن میں الطاف حسین کے خلاف تحقیقات سے قبل تعلقات کوبہت بڑھانے کے حق میں نہیں ہے۔ان کا خیال ہے کہ نواز شریف نے سندھی قوم پرستوں کی قیمت پرمتحدہ کی صدارتی امیدوار کیلیے حمایت حاصل کی ہے۔مسلم لیگ (ن) سندھ کواس پیشرفت سے کچھ حاصل نہیں ہوااور وہ تنہائی میں جاسکتی ہے شاید اسی وجہ سے ن لیگ سندھ کے صدرغوث علی شاہ نائن زیرو جانے والے وفد میں شامل نہیں تھے۔صورتحال سے باخبراندرونی ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم اور ن لیگ کے رہنمائوں کے درمیان اسلام آباد میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ملاقات کو حتمی شکل اس وقت دی گئی جب بابر غوری کچھ روز قبل لندن گئے اورالطاف حسین کو صورتحال سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ صدرزرداری اوررحمٰن ملک بھی اس تمام صورتحال سے آگاہ تھے۔ ایم کیو ایم کی ن لیگ کے صدارتی امیدوارممنون حسین کیلیے حمایت غیرمشروط ہے اور نہ ہی ن لیگ نے ایم کیو ایم کو باضابطہ طور پ حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔اس مشکل صورتحال میں ایم کیو ایم نے اپنے پتے انتہائی مہارت سے کھیلے اوراپنی سیاسی تنہائی کا خاتمہ کردیاہے۔ پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کی وجہ سے ایم کیوایم کو ن لیگ کے امیدوار ممنون حسین اورتحریک انصاف کے امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین کے درمیان انتخاب آسان ہوگیاہے۔متحدہ اب پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں توازن رکھتے ہوئے تحریک انصاف پر دبائو ڈال سکتی ہے۔مسلم لیگ(ن) کے سخت رویہ رکھنے والے رہنمائوں کوبھی شکست دیکھنا پڑی ہے کیونکہ وہ سندھ کی گورنری کی امیدلگائے بیٹھے تھے،اب ڈاکٹر عشرت العباد کوہٹانا آسان نہیں ہوگا اور اگر ہٹایا بھی گیاتومتحدہ کواعتمادمیں لیاجائے گا۔

تبصرے بند ہیں.