خواجہ خورشید انورکے فن کو ماسٹر غلام حیدرنے بھی سراہا

لاہور: پاکستان میں جب بھی فلمی موسیقی کی تاریخ لکھی جائے گی تو ان میں خواجہ خورشید انور کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ خواجہ صاحب صرف ایک موسیقار ہی نہیں تھے بلکہ فن موسیقی کی ایک تاریخ ، ایک محقق اور ایک درسگاہ کے علاوہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ، فلمساز ، ہدایتکار ، کہانی نویس، مکالمہ نگار اور نغمہ نگار بھی تھے۔ گو انھوں نے اپنے 39سالہ فلمی کیرئیر میں صرف 31 فلموں کے لیے موسیقی دی مگر باکمال کام کیا۔ خواجہ خورشید انور کی پیدائش 31مارچ 1912ء کو میانوالی میں ہوئی تھی ۔ ان کا تعلق لاہور کے ایک انتہائی معزز اور تعلیم یافتہ کشمیری خاندان سے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ان کے خالو تھے۔ خواجہ خورشید کے نانا خان بہادر خان ڈاکٹر عطا محمد سرجن تھے ۔ جو علامہ اقبال کے سسر تھے۔ خواجہ خورشید کے والد خواجہ فیروز الدین لاہور کے ایک نامی گرامی وکیل تھے جب کہ ان کے دوبھائی بھی اسی پیشے سے متعلق تھے۔ خود خواجہ نے 1935ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فلاسفی میں ایم اے کی ڈگری امتیازی نمبروں میں پاس کی تھی اور انڈین سول سروس کے تحریری امتحان میں پاس ہونے کے باوجود زبانی امتحان میں صرف اس وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے تھے کہ اس وقت انھیں فن موسیقی سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور وہ استاد توکل حسین خان سے فن موسیقی کے رموز واسرار سیکھنے میں مصروف رہتے تھے ۔انھوں نے برصغیر کے تمام موسیقار گھرانوں کے فن پر مشتمل راگ مالا کے نام سے ایل پی تیار کروائے تھے جن میں سو مختلف راگ ، ان پر ان کی اپنی زبان میں کمنٹری ، راگوں کے متعلق فنی معلومات اور مختلف گھرانوں کا تعارف بھی شامل تھا۔ یہ ایک ایسا نادر مجموعہ ے جسے مکمل کرنے کا اعزاز بھی صرف اور صرف خواجہ خورشید انور کے حصے میں آیا تھا جو ایک انتہائی لائق تحسین کام ہے ۔1939ء میں خورشید انور ، ریڈیو لاہور اور پھر دہلی سے وابستہ ہوگئے تھے جہاں موسیقی کے مختلف پروگراموں میں انھوں نے اس وقت کی ممتاز گلوکاراؤں ملکہ پکھراج ، ممتاز بیگم ، اختری بائی فیض آبادی اور سولن بائی وغیرہ سے کئی گیت گوائے تھے لیکن بہت جلد ریڈیو کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔ نامور فلمساز اور ہدایتکار میاں عبدالرشید کاردار نے جب 1941 ء میں لاہور میں پنجابی فلم ’’کڑمائی‘‘ بنائی تو انھیں کوئی ایسا موسیقار چاہیے تھا جو ماسٹر غلام حیدر کے معیار کا ہو۔ خورشید انور نے انھیں مایوس نہیں کیا تھا بلکہ خود ماسٹر غلام حیدر نے بھی ان کے کام کی تعریف کی تھی ۔ اس واحد لاہور ساختہ پنجابی فلم کے بعد خورشید انور بمبئی چلے گئے تھے ۔ جہاں انھوں نے مزید آٹھ اردو ہندی فلموں کی موسیقی دی تھی جن میں ’’اشارہ‘‘، ’’پرکھ‘‘ ، ’’یتیم ‘‘ ، ’’نورعرب‘‘ ، ’’سلور کوئین‘‘ ، ’’آج اور کل‘‘، ’’پگڈنڈی‘‘ اور ’’ پروانہ‘‘ شامل تھیں ۔ تقسیم کے بعد وہ بہتر حالات کے باعث بھارت ہی میں رہے اور مزید چار فلموں ’’سنگھار ‘‘ ، ’’نیلم پری‘‘ ، ’’نشانہ‘‘ ، ’’خاموش سپاہی ‘‘ کی موسیقی ترتیب دی ۔ ان فلموں میں سے ’’پروانہ ‘‘ اور ’’سنگھار‘‘ موسیقی کے لحاظ سے قابل ذکر فلمیں تھیں لیکن وہ کوئی امر گیت نہ گوا سکے تھے۔ مجموعی طور پر انھیں بھارت میں وہ بھرپور کامیابی نہ مل سکی تھی جو ان کے ہم عصر موسیقاروں مثلا ’’انمول گھڑی‘‘ کے نوشادعلی وغیرہ کے حصے میں آئی تھی ۔ 1955ء میں خواجہ خورشید انور پاکستان چلے آئے ۔ اس وقت بھارتی فلموں کے مقابلے میں پاکستانی فلمیں اپنا مقام پیدا کر رہی تھیں ۔ خواجہ خورشید انور نے گو پہلے فلم ’’مرزا صاحباں‘‘ کا معاہدہ کیا جو کمزور گئی لیکن ریلیز کے اعتبار سے ان کی پہلی فلم ’’انتظار‘‘ تھی جسکی امرموسیقی نے انھیں اپنا نام ومقام پیدا کرنے میں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا تھا ۔ اس کے علاوہ ’’زہر عشق‘‘ ، ’’جھومر‘‘ ، ’’گھونگھٹ‘‘ ، ’’کوئل‘‘ ، ’’چنگاری‘‘ ، ’’ہیر رانجھا‘‘ ، ’’ہمراز‘‘، سمیت دیگر ان گنت فلموں کے میوزک دیے۔ خواجہ خورشید انور نے اپنے 39سالہ فلمی کیرئیر میں ہمیشہ اپنے انداز میں کام کیا اور کبھی اپنی ڈگر سے نہ ہٹے ۔ موسیقی سے گہرا شغف رکھنے والے ان کی دھنوں کو بخوبی پہچان لیتے تھے ۔ وہ زیادہ تر نسوانی آوازیں استعمال کرتے تھے اور انھوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ گیت ملکہ ترنم نورجہاں سے گوائے۔ خواجہ خورشید انور کا انتقال 30اکتوبر 1984ء کو لاہور میں ہوا تھا۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے خواجہ خورشید انور کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چھ ماہ کا ایک طویل پروگرام پیش کیا تھا جو اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے

تبصرے بند ہیں.