اسلام آباد:سیاسی جماعتوں کوجلسوں سے روکنے کی سپریم کورٹ بارکی درخواست پرسماعت سپریم کور ٹ میں سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ اسمبلی کااندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگااسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندرلڑی جائے،وکیل بار نے کہا کہ تمام ارکان کوآزادانہ ووٹ ڈالنے کاحق ہوناچاہیے،وکیل بار کی جانب سے آرٹیکل66 کاحوالہ،رولز کے مطابق25 مارچ کوتحریک عدم اعتمادپیش ہوگی،تحریک پرفیصلے تک اجلاس غیرمعینہ مدت کیلئے ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی،فاروق نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کانوٹس عدالت میں پیش کردیا ‘فاروق ایچ نائیک نے کہا اسپیکر نے آئین شکنی کی ہے،چیف جسٹس آرٹیکل6سے متعلق فاروق نائیک کی بات پرمسکرا دیئے‘اٹارنی جنرل نے کہا جن پرآرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پرعمل کروا لیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ بار چاہتی ہے ارکان جس کوچاہیں ووٹ ڈالیں،بارزیادہ تفصیلات میں گئی توجسٹس منیب کی آبزرویشن رکاوٹ بنے گی،سوال یہی ہے ذاتی چوائس پارٹی مو¿قف سے مختلف ہوسکتی یانہیں؟ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتاہے،عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پرقائل نہیں ہوئی،عدالت صرف چاہتی ہے کسی کے ووٹ کاحق متاثرنہ ہو،یہ تمام نکات اسپیکرکے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں،عدالت نے دیکھناہے کسی کے حقوق متاثرنہ ہوں،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 17کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں،آرٹیکل95کے تحت ووٹ کاحق سیاسی جماعت کاہوتاہے،بارکاکیس آئین کی کس شق کے تحت ہے ،یہ توبتادیں؟آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کاحق کیسے مل گیا؟آرٹیکل 66 توپارلیمانی کارروائی کوتحفظ دیتاہے،آرٹیکل 63 اے کے تحت تورکن کے ووٹ کاکیس عدالت آسکتاہے،آرٹیکل95 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں،نوازشریف اوربینظیربھٹوکیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے،آرٹیکل17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے،سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعداجتماعی حق تصورکیاجاتاہے،
تبصرے بند ہیں.