اٹارنی جنرل انور منصور اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے، انہوں نے اپنا استعفی صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دیا۔صدر مملکت کو بجھوائے گئے استعفے کے متن میں انور منصور نے کہا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے تعیناتی پر سوال اٹھائے تھے، پاکستان بار کونسل نے استعفے کا مطالبہ کیا تھا، سپریم کورٹ، سندھ اور کراچی بار کا تاحیات رکن ہوں، اس صورتحال کی روشنی میں عہدے سے مستعفیٰ ہو رہا ہوں۔ذرائع وزارت قانون کے مطابق انور منصور سے وفاقی حکومت نے استعفی طلب کیا تھا، انور منصور کے عدالتی دلائل کے بعد وفاقی حکومت نے مستفی ہونے کا کہا تھا، وفاقی حکومت نے انور منصور کے قاضی فائز عیسی کیس میں دلائل سے لاتعلقی ظاہر کر دی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست بھی دائر کر دی گئی۔وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، حکومت نے انور منصور سے استعفیٰ طلب کیا تھا، حکومت کی طرف سے ایک جواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا، انور منصور نے بغیر اجازت سپریم کورٹ میں بیان دیا، انور منصور سے کہا گیا خود استعفیٰ دے دیں تو اچھا ہے۔خیال رہے مستعفی اٹارنی جنرل انور منصور ماضی میں سندھ ہائی کورٹ کے جج اور سابق ایڈووکیٹ جنرل بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے اپنے کیریئر کی ابتدا بطور فوجی کیپٹن کی۔انور منصور خان کے والد منصور خان سپریم کورٹ کے سینئر وکیل تھے، فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور منصور نے بھی اسی پیشے کو اپنایا اور 1981 میں وکالت کی ابتدا کی، 1983 میں انہیں ہائی کورٹ کے لیے انرول کیا گیا۔2000 میں انہیں سندھ ہائی کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا مگر اگلے ہی سال وہ مستعفی ہوگئے۔ 2002 میں انہیں سندھ کا ایڈووکیٹ جنرل مقرر کیا گیا مگر اس عہدے سے بھی انہوں نے 2007 میں استعفٰی دے دیا۔انور منصور خان پاکستان بار، سندھ ہائی کورٹ بار اور کراچی بار کے رکن رہے۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ بار کی صدرات کے لیے رشید رضوی کے مدمقابل الیکشن بھی لڑا مگر انہیں اس میں شکست ہوئی۔ پاکستان میں کمپنیز آرڈیننس کی تیاری، پاکستان میں اسلامی بینکنگ رائج کرانے میں بھی انور منصور خان نے اہم کردار ادا کیا۔
تبصرے بند ہیں.