افغان حکومت نے 100 طالبان قیدی رہا کر دئیے

کابل (نیوز ایجنسیز ، نیٹ نیوز )طالبان کی جانب سے کابل کے ساتھ مذاکرات سے دستبردار ہونے کے اعلان کے ایک روز بعد افغان حکومت نے کم خطرے والے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کردیا۔ مطابق قیدیوں کی رہائی افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے بین الاافغان مذاکرات کی جانب پہلا اقدام ہے، امریکا اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے تحت طالبان سے بھی اغوا کیے گئے ایک ہزار سرکاری اہلکاروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔افغان قومی سلامتی کے مشیر کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا کہ کابل کے نزدیک بگرام بیس سے 100 قیدیوں کو رہا کیا گیا، دوسری جانب طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ایک پیغام میں کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ حکومت بغیر تصدیق کے کس کو رہا کررہی ہے کیوں کہ حکومت کی جانب سے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کے سبب طالبان نے اپنی تکنیکی ٹیم کو واپس بلالیا تھا۔ایک ٹوئٹ میں سہیل شاہین نے حکومت کی جانب سے ان 15 طالبان کو رہا کرنے سے انکار کرنے پر متنبہ کیا تھا جن کی فہرست طالبان نے فراہم کی تھی اور کہا تھا کہ انہیں ’ہماری فہرست‘ کی بنیاد پر (قیدی) رہا کرنا چاہیئے۔افغانستان کے قومی سلامتی کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ جن 100 قیدیوں کو رہا کیا گیا ان کی اچھی طرح ’جانچ پڑتال‘ کی گئی اور انہوں نے دوبارہ میدانِ جنگ میں نہ جانے کا حلف اٹھایا ہے، بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت کو ’ دوحہ میں موجود (طالبان) قیادت کی جانب سے بھی یہی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔قبل ازیںافغانستان کی حکومت نے کہا تھا کہ طالبان کے 100 قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے جس میں اہم کمانڈرز شامل نہیں ہیں۔طالبان نے 2 روز قبل افغان حکومت پر قیدیوں کی رہائی میں تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے مذاکرات سے واک آو¿ٹ کیا تھا اور امریکا کو خبردار کیا تھا کہ معاہدہ ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کا کہنا تھا کہ ‘طالبان کے 100 قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم معاہدے کے مطابق اپنا کردار نبھا رہے ہیں اور امن کا عمل آگے بڑھنا چاہیے ، جاوید فیصل نے کہا کہ ‘جن قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے ان میں 15 کمانڈرز شامل نہیں ہیں اور اضافی قیدیوں کو بھی رہا کیا جائے گا جس کا انحصار طالبان پر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔امریکا نے معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال جولائی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا جبکہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ مذاکرات شروع ہوئے تھے جو بین الافغان مذاکرات کا حصہ ہیں، جس کے لیے طالبان کا 3 رکنی وفد کابل پہنچا تھا اور حکومت کی جانب سے بھی دیگر اسٹیک ہولڈر کی رضامندی سے ایک وفد تشکیل دیا تھا۔طالبان اور افغان حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات میں اس وقت تعطل آیا تھا جب کابل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان سرفہرست 15 کمانڈروں کی رہائی چاہتے ہیں، دوسری جانب طالبان نے کہا تھا کہ افغان حکومت غیر ضروری طورپر وقت ضائع کر رہے ہیں۔قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے مذاکراتی وفد کو کابل سے واپس بلا لیا ہے کیونکہ افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات معطل ہوگئے ہیں، سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے قیدیوں کی رہائی میں غیر ارادی تاخیر امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے اس لیے ہم نے اپنی ٹیکنیکل ٹیم کو کابل سے واپس بلالیا ہے۔امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کابل کے دورے میں افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد پیش رفت ہوئی ہے،اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ‘ہم نے پیش رفت کی ہے جس کا کچھ اظہار میڈیا میں بھی ہورہا ہے اور بیانات بھی آرہے ہیں’۔

تبصرے بند ہیں.