کابل (فارن ڈیسک)کابل انتظامیہ امریکا کے ساتھ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے معاہدے کے تحت اب تک 900 سے زائد طالبان قیدیوں کو رہا کرچکی ہے، فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق یہ رہائی امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو طے کیے گئے معاہدے میں شامل قیدیوں کے تبادلے کے پروگرام کا حصہ ہے جس میں درجنوں افغان سکیورٹی اہلکاروں کو بھی رہا کیا گیا ہے۔اس حوالے سے افغانستان کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل کے مطابق اب تک افغان جیلوں سے 9 سو 33 طالبان قیدیوں کو رہا کیا جاچکا ہے، دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاد نے بتایا کہ بدلے میں کابل انتظامیہ کے ایک سو 32 قیدیوں کو رہا کیا گیا، امریکی نمائندہ برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد قیدیوں کے تبادلے کو جنگ زدہ ملک میں تشدد کی کمی کی جانب ‘اہم قدم’ سمجھتے ہیں۔افغان حکام کا کہنا ہے کہ کابل نے اب تک کم خطرہ رکھنے والے طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے جو لڑائی سے دور رہنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں، طالبان کا اصرار ہے کہ افغانستان کی جیلوں میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث ان کے اراکین کی رہائی میں تیزی کی جائے۔دوسری جانب امریکا نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا سے قبل قیدیوں میں تبادلے میں تیزی کے لیے دونوں فریقین پر دباو¿ ڈالنا شروع کردیا ہے، معاہدے کے تحت طالبان نے امریکی فوجی اتحاد پر فضائی حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن افغان فوجیوں کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔افغان حکام نے ملک میں تشدد میں اضافہ رپورٹ کیا ہے جس کے باعث طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے آغاز کی کوششیں تعطل کا شکار ہوگئی ہیں، اسی لیے امن معاہدے کی حمایت اور تشدد کے خاتمے کے لیے طالبان پر دباو¿ ڈالنے کے لیے زلمے خلیل زاد رواں ہفتے قطر، بھارت اور پاکستان کا دورہ کریں گے۔یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے، امریکا نے معاہدے کے تحت وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال جولائی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا ہوگا جبکہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گزشتہ ماہ مذاکرات شروع ہوئے تھے جو بین الافغان مذاکرات کا حصہ ہیں، جس کے لیے طالبان کا 3 رکنی وفد کابل پہنچا تھا اور حکومت کی جانب سے بھی دیگر اسٹیک ہولڈر کی رضامندی سے ایک وفد تشکیل دیا تھا، طالبان اور افغان حکومتی وفد کے درمیان مذاکرات میں اس وقت تعطل آیا تھا جب کابل کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ طالبان سرفہرست 15 کمانڈروں کی رہائی چاہتے ہیں، دوسری جانب طالبان نے کہا تھا کہ افغان حکومت غیر ضروری طورپر وقت ضائع کر رہے ہیں۔قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے 8 اپریل کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہم نے اپنے مذاکراتی وفد کو کابل سے واپس بلا لیا ہے کیونکہ افغان حکومت کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے مذاکرات معطل ہوگئے ہیں، سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے قیدیوں کی رہائی میں غیر ارادی تاخیر امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے اس لیے ہم نے اپنی ٹیکنیکل ٹیم کو کابل سے واپس بلالیا ہے۔ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ کابل کے دورے میں افغان صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد پیش رفت ہوئی ہے ، سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے پیش رفت کی ہے جس کا کچھ اظہار میڈیا میں بھی ہورہا ہے اور بیانات بھی آرہے ہیں، بعدازاں 9 اپریل کو طالبان کی جانب سے کابل کے ساتھ مذاکرات سے دستبردار ہونے کے اعلان کے ایک روز بعد ہی افغان حکومت نے کم خطرے والے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کیا تھا۔
تبصرے بند ہیں.