لاہور (نیوز ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ طالبان سے معاہدے کے تحت افغانستان سے تمام امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے یکم مئی کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنا ‘مشکل’ ہو گا تاہم امریکی فوج وہاں ہمیشہ کے لیے موجود نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بیس جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جو بائیڈن نے کہا کہ ‘حکمت عملی سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے یکم مئی کی آخری تاریخ کو پورا کرنا مشکل ہو گا، فوجیوں کا انخلا مشکل ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم چلے جائیں گے، سوال یہ ہے کہ ہم کب روانہ ہوں گے’۔
جب سوال کیا گیا کہ کہ کیا وہ 2022 میں امریکی فوجیوں کو افغانستان میں دیکھتے ہیں تو امریکی صدر نے کہا کہ ‘میں یہ نہیں دیکھا سکتا کہ ایسا کوئی معاملہ ہو’۔
صدر نے اپنے دفتر میں 100 روز کے دوران امریکا میں کووڈ 19 کے خلا 20 کروڑ ویکسینیشن کے انعقاد کا ایک نیا مقصد طے کیا اور عہدے سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی اکیلے نیوز کانفرنس کے انعقاد کے بعد معاشی ترقی کا دعوٰی کیا۔
وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں پیش ہوتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ انہوں نے دفتر سنبھالنے کے 100 روز میں 10 کروڑ ویکسینیشن کا ابتدائی ہدف گزشتہ ہفتے شیڈول سے 42 دن پہلے ہی حاصل کرلیا تھا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ‘میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل ہے اور جو ہمارا اصلی ہدف تھا اس سے دو گنا زیادہ ہے تاہم دنیا کا کوئی دوسرا ملک اس کے قریب بھی نہیں آیا’۔
انہوں نے اس خبر کے ساتھ معاشی ترقی کا بھی دعوی کیا کہ بے روزگاری انشورنس کا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی بھی بہت سارے امریکی کام نہیں کر رہے ہیں، بہت سارے خاندانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے اور ابھی بہت کام کرنا باقی ہے تاہم میں امریکی عوام سے کہہ سکتا ہوں، آپ کی مدد کی جائے گی اور امید بھی نظر آرہی ہے’۔
جو بائیڈن نے امریکی کانگریس میں ریپبلکنز سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے یا ‘تقسیم کی سیاست کو جاری رکھنے’ میں مدد کریں کیونکہ وہ بندوقوں کے کنٹرول، ماحولیاتی تبدیلی اور امیگریشن اصلاحات جیسے امور پر غور کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا ‘میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ مجھے مسائل حل کرنے کے لیے رکھا گیا ہے، نہ کہ تفرقہ پیدا کرنے کے لیے’۔
تبصرے بند ہیں.