اسلامی بینک انفرا اسٹرکچر فنڈنگ ضرورت پوری کرسکتے ہیں

سنگاپور: اسلامی بینک بنیادی شرعی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ایشیا کی بڑھتی ہوئی انفرااسٹرکچر سرمایہ کاری ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔ یہ بات اسلامی بینکوں کے ایگزیکٹوز نے سنگاپور میں منعقدہ ورلڈاسلامک بینکنگ کانفرنس سے خطاب میں کہی۔ یاد رہے کہ اسلامی بینک 2008 کے عالمی اقتصادی بحران سے نسبتاً محفوظ رہے تھے اور ان کے مجموعی اثاثے 2012 میں 1.6 ٹریلین ڈالر (1.22 ٹریلین یورو) تک پہنچ گئے جو 2011 کے مقابلے میں 20.4 فیصد زیادہ ہیں۔ کانفرنس سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ عالمی اسلامی بینکاری اثاثوں کا 13 فیصد ایشیائی ممالک کے پاس ہے۔ سینٹرل بینک آف کویت کے گورنر محمد وائے الہاشیل نے کلیدی خطاب میں کہا کہ ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے اندر بعض ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور دیگر ممالک میں اربنائزیشن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر انفرااسٹرکچر تعمیر کرنا پڑے گا، چونکہ اسلامی مالیاتی نظام کے تحت قرضوں کا تعلق حقیقی اثاثوں سے ہوتا ہے اس لیے اس میں انفرااسٹرکچر کی تعمیرکے لیے فنڈنگ ضروریات پوری کرنے کی بڑی گنجائش ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک نے 2012 میں اندازہ لگایا تھا کہ ایشیا کو ریل نیٹ ورک، ایئرپورٹس، پاورنیٹ ورکس اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس جیسی قومی انفرااسٹرکچر ضروریات کے لیے 8 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملائیشیا کے چیئرمین سیکیورٹیز کمیشن رنجیت اجیت سنگھ نے کہا کہ خطے کی وسیع انفرااسٹرکچر کیپٹل ضروریات دیگر ایشیائی ممالک میں بھی اسلامی مالیات کے فروغ کا باعث ہو سکتی ہیں، متعدد انفرااسٹرکچر اثاثے بنیادی طور پر شریعہ کمپلائنٹ ہیں اس لیے سکوک کے اجرا کے ذریعے بڑے پیمانے پر سرمایہ جمع کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایشیا میں مڈل کلاس صارفین میں اضافے کے باعث شریعہ کمپلائنٹ سرمایہ کاری اور بچت مصنوعات کی طلب بڑھ سکتی ہے۔ مقررین نے زور دیا کہ اسلامی بینکوں کو روایتی بینکاری شعبے کی طرح حد سے نہیں بڑھنا چاہیے جس کی وجہ سے عالمی اقتصادی بحران پیدا ہوا اور سماجی طورپر ذمے دار صنعتوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.