کیا عمران 1977ء جیسی تحریک چلاسکیں گے؟

کراچی: تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان الیکشن کمیشن اورعدلیہ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر11مئی کے انتخابات میں وسیع پیمانے پرکی گئی دھاندلی کی مناسب تحقیقات نہ کی گئی توعیدکے بعداحتجاجی مہم شروع کی جائیگی۔ کیا عمران خان کی تحریک اتنی مضبوط ہوگی کہ جس کے باعث کوئی ادارہ 1977ء کے طرح دوبارہ انتخابات کرانے کیلیے دباؤ کے آگے ہتھیارڈال دے۔عمران خان نے عیدکے فوراًبعدسڑکوں پراحتجاج کااعلان کرکے اپنی جماعت کوتیاری کیلیے بھرپوروقت دیاہے ۔پی ٹی آئی انتخابات میں دوسرے نمبرپرآئی اور75لاکھ ووٹ حاصل کیے جوکسی بھی تحریک کیلئے کافی ہیں مگرکیاوہ سڑکوں پرآئیں گے ؟یہ علیحدہ سوال ہے۔عمران خودبھی تحریک کے حوالے سے پراعتماد نہیں ،ایک طرف وہ گلیوں میں احتجاج کی بات کرتے ہیں تودوسری طرف کہتے ہیں کہ وہ نوازشریف کوایک موقع دیناچاہتے ہیں۔ تاہم ان کی جماعت کی طرف سے احتجاجی صلاحیتیں دیکھنے کے لائق ہوں گی ،جوکہ اقتدارکی سیاست کیلیے لازم ہے، ان کی جماعت اس ضمن میں اپنی اتحادی جماعت اسلامی سے کافی کچھ سیکھ سکتی ہے، جماعت کی طاقت بھی 11مئی کے انتخابات کے بعدسے کئی دھرنوں کے باعث اس میدان میں بظاہرکم ہوتی جارہی ہے۔اس کے باوجودوہ 1977ء کی پی این اے کی تحریک اور1984ء میں یونینوں پرپابندی کیخلاف طلبہ تحریک کے تجربات سے کچھ اس کے ’شیئر‘ کرسکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.