مخصوص نشستوں کا کیس: پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، جسٹس منیب اختر

سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 13 رکنی فل کورٹ بنچ سماعت کر رہا ہے۔جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات سے دلائل کا آغاز کروں گا، 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، 2002 اور 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم ازکم ایک نشست جیتی ہوگی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کر دیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 265 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018 میں 60 خواتین اور 10 غیرمسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔اٹارنی جنرل نے 2002 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی عدالت کو آگاہ کر دیا، انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انتخابات 2002ء میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا، سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہو سکتی ہے، کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اسمبلی مدت ختم ہ

تبصرے بند ہیں.