سکارلٹ جوہانسن نے رفاعی ادارے آکسفیم کو چھوڑ دیا

ہالی ووڈ اداکارہ سکارلٹ جوہانسن نے اسرائیلی کمپنی کی حمایت کرنے کے تنازع پر رفاعی ادارے آکسفیم کی سفیر کی حیثیت سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔

نیویارک: (آن لائن) ہالی ووڈ کی اداکارہ سکارلٹ جوہانسن نے غربِ اردن میں قائم اسرائیلی کمپنی کی حمایت کرنے کے تنازع پر رفاعی ادارے آکسفیم کی سفیر کی حیثیت سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اداکارہ کے ترجمان نے کہا کہ سکارلٹ جوہانسن کو آکسفیم کے خیالات کے ساتھ بنیادی اختلاف ہے۔ وہ سوڈا سٹریم نامی اسرائیلی کمپنی کی برانڈ کی سفیر کے طور پر کام جاری رکھے گی۔ سوڈا سٹریم کا مالا آدمیم میں غیر قانونی یہودی آبادی میں ایک کارخانہ ہے۔ آکسفیم ان یہودی آبادی سے تجارت کی مخالفت کرتا ہے۔ یہ تجارت بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے لیکن اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ 1967ء میں اسرائیل کی طرف سے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے یہاں 100 سے زائد آبادیوں میں تقریباً 5 لاکھ یہودی آباد ہیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سکارلٹ جوہانسن کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ہالی ووڈ کی اداکارہ نے آکسفیم کی سفیر کی حیثیت سے آٹھ سال تک کام کرنے کے بعد اسے باعزت طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آکسفیم نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے جوہانسن کے اپنے عہدے کو چھوڑنے کے فیصلے کو قبول کیا ہے اور وہ ان کی خدمات کی شکر گزار ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ آکسفیم اپنے سفیروں کی آزادی کی قدر کرتا ہے لیکن جوہانسن کا سوڈا سٹریم کے لیے کام کرنا ان کے آکسفیم کے عالمی سفیر ہونے کے ناطے مناسب نہیں تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ آکسفیم کو یقین ہے کہ سوڈا سٹریم جیسے کاروبار جو یہودی آبادی میں چلائے جاتے ہیں فلسطینی عوام کی غربت میں اضافے اور ان کے انسانی حقوق کو غصب کرنے کا باعث ہیں۔ لیکن سکارلٹ جوہانسن کے ترجمان کی طرف سے جاری میں کہا گیا کہ سوڈا سٹریم نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے پل کا کام کر رہی ہے جہاں پڑوسی ایک ساتھ کام کرتے ہوئے ایک جتنی تنخواہ لیتے ہیں اور جن کے حقوق برابر ہیں۔ تاہم خبر رساں ادارے نے ایک بے نام فلسطینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس فیکٹری میں نسلی امتیاز برتا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکثر مینیجر اسرائیلی ہیں اور غربِ اردن سے تعلق رکھنے والے ملازمین تنخواہ بڑھانے کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ انھیں آسانی سے فارغ کرکے ان کی جگہ نئے لوگوں کو بھرتی کیا جا سکتا ہے

تبصرے بند ہیں.