رویت ہلال: پشاور میں مرکزی کمیٹی کو اغوا کی کوشش کا انکشاف

پشاور: مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن کو چاند نظر آنے کی شہادتوں کو تسلیم کرنے کیلیے دبائو ڈالنے اور انھیں زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کے باعث 9 سال سے پشاور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد نہ ہوسکا ۔ جس کے باعث روزہ اور عید کے حوالے سے تنازع ختم ہونے کی بجائے مرکز اورصوبے میں فاصلے مزید بڑھ گئے جو پارلیمنٹ میں قانون سازی ہونے تک ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ایک سابق رکن شبیر احمد کاکاخیل نے ہفتے کو صوبائی وزیر مذہبی امور حبیب الرحمٰن کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ’’ متحدہ مجلس عمل کے دور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے پشاور میں مفتی منیب الرحمٰن کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کے دوران مانکی شریف سے تعلق رکھنے والے افراد چاند نظر آنے کی شہادت لے کر آئے تاہم جب ان کی شہادتوں کی جانچ پڑتال کی گئی تووہ شرعی اعتبار سے مکمل نہیں تھیں تاہم ان لوگوں کا اصرار تھا کہ ان کی شہادتوں کو قبول کیاجائے اور ہمارے انکار پر انھوں نے زبردستی انھیں گاڑی میں ڈال کر اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی۔مذکورہ سابق رکن مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے واضح کیا کہ اس صورت حال کی وجہ سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ایم ایم اے کے دور حکومت کے بعد پشاور میں منعقد نہیں ہوسکا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا آخری اجلاس متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں پشاور میں مفتی منیب الرحمٰن ہی کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں رات کے وقت مفتی منیب الرحمٰن کو دوبارہ شہادتوں کی بنیاد پر روزے کا اعلان کرنے کا کہا گیا تاہم انھوں نے اعلان نہیں کیا تھا جس پر ایک اور تنازع پیدا ہوگیا تھا۔ مذکورہ صورتحال کی وجہ سے ایم ایم اے کی حکومت کے آخری 3 جبکہ اے این پی و پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کے 5 سال کے دوران پشاور میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں ہوسکا اور مرکزی کمیٹی کے اجلاس کراچی ،لاہور ،اسلام آباد اور دیگر شہروں ہی میں منعقد ہوتے آئے ہیں جبکہ اس مرتبہ بھی 9 جولائی کو رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوگا۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا گزشتہ 108 ماہ سے پشاور میں کوئی بھی اجلاس منعقد نہ ہونے کے باعث مرکزی اور صوبائی کمیٹیوں میں فاصلوں کو کم کرنے اور ایک ہی دن روزہ اور عید کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے حوالے سے معاملات آگے نہیں بڑھ پائے اور مذکورہ تنازعہ اب پارلیمنٹ کی قانون سازی ہی کے ذریعے ختم ہونے کی راہ دیکھ رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.