روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام میں پولیس مدد کررہی ہے، بی بی سی

ینگون: 

’’ہم آگے بڑھے ہی تھے کہ ہم نے وہاں سے چند نوجوانوں کو باہر نکلتے دیکھا جن کے پاس چھریاں، تلواریں اور غلیلیں تھیں۔ ہم نے ان سے سوال کیے لیکن انہوں نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کر دیا۔ میرے ساتھ موجود میانمار کے چند صحافیوں نے ان سے کیمرے سے دور جا کر بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ وہ رخائن کے بودھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ان میں سے ایک نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس نے آگ لگائی تھی۔ اس نے کہا کہ پولیس نے اس کی مدد کی۔‘‘

یہ الفاظ کسی مسلمان کے نہیں بلکہ میانمار میں بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈ کی ایک رپورٹ سے لیے گئے ہیں جس کا ترجمہ چند گھنٹوں پہلے ہی ’’بی بی سی اردو‘‘ کی ویب سائٹ پر ’’جب بی بی سی کے نامہ نگار نے روہنگیا مسلمانوں کا ایک گاؤں جلتا دیکھا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔

اس رپورٹ میں جوناتھن ہیڈ بتاتے ہیں کہ میانمار (برما) کی حکومت نے اپنے خلاف عالمی رائے کا ازالہ کرنے کےلیے بدھ کے روز مقامی اور غیر ملکی صحافیوں کو رخائن (راکھین) میں مسلمانوں کے متاثرہ علاقوں کا دورہ کروایا جس کا مقصد اس سرکاری مؤقف کی تائید حاصل کرنا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کی کوئی نسل کشی نہیں کی جارہی بلکہ ’’روہنگیا مسلمان اور انتہا پسند (مسلمان) جنگجو‘‘ خود ہی اپنے گاؤں جلا رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.