جونیئرزکی اہم عہدوں پرتعیناتی ایف بی آرمیں کرپشن کی وجہ قرار

قومی احتساب بیورو(نیب) نے گزشتہ 3 سال کے دوران سول سرونٹ کو نظر انداز کرکے جونیئر اسٹاف کو اپ گریڈ کرکے اہم عہدوں پر تعیناتی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) میں اربوں روپے کی کرپشن و بدعنوانیوں کا ذمے دار قرار دیدیا ہے اور ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے فیلڈ آفسز میں اہم عہدوں پر گریڈ 17 اور اس سے زائد گریڈ کے کوالیفائڈ افسران کو بطور یونٹ انچارج تعینات کیا جائے۔ دستیاب دستاویز کے مطابق قومی احتساب بیورو کی طرف سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کو لکھے جانے والے لیٹر نمبر 5-4(38)/MIsc /A&P/NABHQ/2013 میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر میں گزشتہ 3 سال کے دوران جونیئر گریڈ کی آسامیوں کو گریڈ 16 اور 17 میں اپ گریڈ کیا گیا ہے اور ان اپ گریڈڈ آسامیوں پر ان لینڈ ریونیو افسران (آئی آر اوز) اور ان لینڈ ریونیو آڈٹ افسران کو تعینات کیا گیا جس کے باعث بڑے پیمانے پر خرابیاں پیدا ہوئی ہیں اورملک میں ہونے والی غیرقانونی تجارت کی وجہ سے قومی خزانے کو 20 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔دستاویز میں بتایا گیاکہ ایف بی آر میں سی ایس ایس کرکے آنے والے افسران کو جان بوجھ کر چھوٹے اور غیر اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا اور نیب کی طرف سے کیے جانے والے ایک سادہ سروے میں یہ بات ثابت ہوئی کہ مختلف لارج ٹیکس پیئر یونٹس (ایل ٹی یوز) اور ریجنل ٹیکس آفسز (آر ٹی اوز) میں اپ گریڈ ہونے والے ان لینڈ ریونیو افسران (آئی آر اوز) اور ان لینڈ ریونیو آڈٹ افسران اہم جوریزڈکشنز خصوصاً اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد میں تعینات ہیں۔ دستاویز میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ زیادہ تر سیلز ٹیکس ریفنڈز ان لینڈ ریونیو آڈٹ افسران کے ذریعے مینیجڈ کیے جارہے ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنرز ان لینڈ ریونیو کو ریفنڈز کے اجرا کے حوالے سے الگ اور دور رکھا جاتا ہے تاکہ یہ اسسٹنٹ کمشنرز ان لینڈ ریونیو ریفنڈ مافیا کی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ لیٹر میں کہا گیاکہ مذکورہ صورتحال کے باعث نیب آرڈیننس کی سیکشن 33 سی کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مروجہ رولز کے مطابق ایف بی آر کے تمام فیلڈ فارمشنز میں گریڈ17 اور اس سے زائد گریڈ کے کوالیفائڈ افسران کو بطور یونٹ انچارج تعینات کیا جائے تاکہ ایف بی آر میں کرپشن و بدعنوانیاں اور ریفنڈ مافیا کو ختم کیا جاسکے۔دستاویز میں بتایا گیاکہ ایف بی آر میں سی ایس ایس کرکے آنے والے افسران کو جان بوجھ کر چھوٹے اور غیر اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا اور نیب کی طرف سے کیے جانے والے ایک سادہ سروے میں یہ بات ثابت ہوئی کہ مختلف لارج ٹیکس پیئر یونٹس (ایل ٹی یوز) اور ریجنل ٹیکس آفسز (آر ٹی اوز) میں اپ گریڈ ہونے والے ان لینڈ ریونیو افسران (آئی آر اوز) اور ان لینڈ ریونیو آڈٹ افسران اہم جوریزڈکشنز خصوصاً اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان اور فیصل آباد میں تعینات ہیں۔ دستاویز میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ زیادہ تر سیلز ٹیکس ریفنڈز ان لینڈ ریونیو آڈٹ افسران کے ذریعے مینیجڈ کیے جارہے ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنرز ان لینڈ ریونیو کو ریفنڈز کے اجرا کے حوالے سے الگ اور دور رکھا جاتا ہے تاکہ یہ اسسٹنٹ کمشنرز ان لینڈ ریونیو ریفنڈ مافیا کی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ لیٹر میں کہا گیاکہ مذکورہ صورتحال کے باعث نیب آرڈیننس کی سیکشن 33 سی کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے ایف بی آر کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مروجہ رولز کے مطابق ایف بی آر کے تمام فیلڈ فارمشنز میں گریڈ17 اور اس سے زائد گریڈ کے کوالیفائڈ افسران کو بطور یونٹ انچارج تعینات کیا جائے تاکہ ایف بی آر میں کرپشن و بدعنوانیاں اور ریفنڈ مافیا کو ختم کیا جاسکے۔

تبصرے بند ہیں.