تقرروتبادلوں میں مداخلت انتظامیہ کے اختیار میں دخل اندازی، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ تقرر و تبادلوں کے معاملات میں ٹربیونل یا عدالت کی مداخلت انتظامیہ کے دائرہ کار میں تجاوز کرنا ہے اور یہ آئین میں بیان کیے گئے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے بلوچستان سروس ٹربیونل کے فیصلے کو کالعدم کرتے ہوئے تین صفحات پر مشتمل اپنا فیصلہ جاری کیا ہے۔فیصلہ بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملازمت کی ضرورت پوری کرنے کیلئے کسی سرکاری اہلکار کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کرنا انتظامیہ کی متعلقہ اتھارٹیز کا اختیار ہے اور ماسوائے غیرمعمولی حالات کے اس عمل میں مداخلت کرنا درست نہیں ہے تاوقتیکہ ملازمت کی شرائط و ضوابط متاثر نہ ہوئی ہوں۔کیس کی تفصیل کے مطابق پرنسپل لورالائی میڈیکل کالج ڈاکٹر شمس اللہ بازئی کو تبدیل کرکے بولان میڈیکل کالج کے ڈیپارٹمنٹ آف آپتھالمولوجی میں پروفیسر کی پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا جبکہ کیس کے مدعی کو لورالائی کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ڈاکٹر شمس اللہ بازئی نے فیصلے کیخلاف محکمانہ اپیل کی جو مسترد کر دی گئی اس پر انہوں نے بلوچستان سروس ٹربیونل میں اپیل کی جو منظور ہوگئی۔تاہم سپریم کورٹ نے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپنی پسند کی جگہ پر تقرر یا تبادلے یا وہاں ملازمت جاری رکھنے کا مطالبہ کرنا سرکاری ملازم کا غیرمشروط حق نہیں ہے۔ تقرر و تبادلہ مخصوص عرصہ ملازمت یا متعلقہ اتھارٹی کی خوشنودی پر منحصر ہے۔ تقرر و تبادلے سے متعلق فیصلے جوڈیشل سکروٹنی میں ہرگز نہیں آنے چاہئیں تاوقتیکہ کسی قانون کی صریحاً خلاف ورزی یا بدنیتی ثابت ہوئی ہو۔عدالت نے قرار دیا کہ سروس ٹربیونل مدعا علیہ کے تقرر و تبادلے کے احکامات میں مداخلت کرنے میں حق بجانب نہیں تھا اور نہ ہی اس کا یہ عمل طے شدہ اصولوں کے مطابق تھا۔

تبصرے بند ہیں.