ایک دوسرے سے بات کرنے والے کپڑے ایجاد

کیلیفورنیا: 

وہ دن دور نہیں جب باضابطہ انداز میں کپڑے بھی ایک دوسرے سے بات کریں گے، اس ضمن میں جامعہ کیلی فورنیا، اِروِن نے ایک لباس بنایا ہے جو ہاتھ ملانے اور تالی مارنے کے عمل میں ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتا ہے۔ باتونی کپڑے کا کارنامہ پیٹر سینگ اور عامر حسینی آغا جانی نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔ یہ میٹا مٹیریئلز سے بنا ہے اور وائرلیس کی بدولت معلومات اور ڈیٹا کا تبادلہ کرتا ہے۔وائرلیس طرز کی نیئرفیلڈ کمیونی کیشن (این ایف سی) ٹیکنالوجی اب عام ہے جس کے تحت چند انچوں سے چار فٹ (120 سینٹی میٹر) دوری تک وائرلیس رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کو لباس میں سمویا گیا ہے۔اس طرح کارڈ سے دروازے کھولنے، اسمارٹ فون سے رقم دینے کے عمل میں ہم نیئر فیلڈ کمیونی کیشن استعمال کررہے ہیں۔ لیکن اب لباس کے موجد پیٹرسینگ کہتے ہیں کہ عین اسی ٹیکنالوجی سے ہم اس عمل کی حد (رینج) بڑھا سکتے ہیں۔یعنی اب یہ ممکن ہے فون جیب میں رکھا ہو اور آستین کو دوسری آستین سے رگڑنے سے فون کی معلومات، بزنس کارڈ اور دیگر ڈیٹا سیکنڈوں میں دوسرے شخص تک پہنچایا جاسکتا ہے۔اس سے قبل نیئر فیلڈ لباس بنائے جاتے رہے ہیں لیکن ان میں ایک کمی تھی کہ پورے لباس میں تاروں کا جال درکار ہوتا ہے اور یوں نقل و حرکت محدود ہوکر رہ جاتی تھی اور لباس بھی بے آرام ہوجاتا تھا تاہم بیٹری سے پاک نیا لباس تانبے اور المونیئم کے باریک ورق پر مشتمل ہے جو مقناطیسی انڈکشن سے سگنل لیتا ہے۔ اس طرح لچک دار اور آرام دہ لباس سے دوسرے لباس تک پیغام رسانی ممکن ہوجاتی ہے۔اس لباس کو ہسپتال میں مریضوں کو پہناکر ان میں کئی طرح کے سینسر لگائے جاسکتے ہیں اور ڈاکٹر ان سے مسلسل طبی ڈیٹا لے سکتے ہیں۔ دو اجنبی دوست ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر ایک دوسرے کے کاروبار اور معلومات کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح لباس سے کار کھولنا اور گھر کا تالہ بند کرنے کا کام بھی آسان ہوجائے گا۔عامر کے مطابق ان کا لباس تجارتی بنیادوں پر تیار کرنا بہت آسان ہے اور اس سے کم خرچ مگر اعلیٰ فیشن اور ڈیزائن کے کپڑے بھی بنائے جاسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.