الیکشن جیتنے کے لیے منفی ہتھکنڈوں کااستعمال دنیابھرمیں ہوتا ہے

کراچی: پاکستان کے سیاسی افق پر اپنی دیرینہ موجودگی کا اچانک احساس دلانے والے عمران خان جب اپنی ہنگامہ خیز انتخابی مہم کے عروج کے دوران زمیں بوس ہوئے تو گویا بھونچال آگیا۔ دوسری جانب مخالفین کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی تو چاہنے والوں کے سرپر آسمان ٹوٹ پڑا۔ اس حادثے کے بارے میں ملی جلی آرا سامنے آئیں۔ بہرحال، یہ امر مسلمہ ہے کہ دنیامیں جہاں جہاں انتخابات ہوتے ہیں، وہاں جیتنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں نیز کچھ اتفاقات بھی کارفرمارہتے ہیں جو کبھی متعلقہ امیدوار کیلیے نعمت بن جاتے ہیں اور کبھی ملال! انتخابی معرکہ آرائیوں میںمخالف کو زیرکرنے کیلیے منفی اور غیراخلاقی ہتھکنڈوں کا استعمال صرف ہمارے یہاں ہی نہیں ہوتا بلکہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے والے ممالک بھی اس حوالے سے ہم سے پیچھے نہیں۔ 2012کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس نے عوام کے سامنے رومنی کو اپنی دنیامیں مگن ایک ایسے بدمزاج دولت مند کے طورپر پیش کیا جو جدیدعورت کو 18ویں صدی میں دھکیل دینا چاہتاتھا۔ اوباما کے حامی بائیں بازو کے میڈیانے بھی اس بدنما خاکے میں خوب رنگ آمیزی کی، اوباما کی آبنوسی رنگت اس پر مستزاد تھی۔ تمام طبقات بالخصوص اقلیتوں کے ووٹرز کو امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر کے خواب نے یوں مسحور کیاکہ انھیں اوباما کے آگے رومنی نہایت بدنما لگتا…اس کے باوجود رومنی کی جیت کے آثار نمایاں تھے۔ کیونکہ معیشت زبوںحالی کی بدترین اور بیروزگاری کی شرح بلندترین سطح پر تھی۔ ایسی منفی کارکردگی کے بعد کوئی صدر دوسری مدت کے لیے منتخب نہیں ہوپاتا۔ پھرجب تمام مستند انتخابی پنڈت اور معتبرسروے رومنی کی جیت کااعلان کررہے تھے تو انھیں شکست کیسے ہوئی؟ اس کا جواب ہے، ووٹرزفراڈ! اخبار کولمبس ڈسپیچ کے مطابق اوہایو میں ہر پانچواںووٹر ووٹ ڈالنے کا اہل نہ تھا۔ ریاست کی کم ازکم دوکاؤنٹیز میں ووٹرز کی تعداد، ووٹ ڈالنے کے اہل بالغوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی۔ ایک کاؤنٹی میں 100قانونی اہل ووٹرز پر 109 رجسٹرڈ ووٹرز موجود ہیں۔ اوہایو کی88کاؤنٹیز میں سے31میں ووٹرز رجسٹریشن کا تناسب90فیصد ہے جسے ماہرین انتہائی مشکوک قرار دیتے ہیں۔ اوباما حیرت انگیز طورپر کلیولینڈ کے21اضلاع میں 100فیصد ووٹ لے اڑے۔ اور جن مقامات سے انسپکٹرز کو غیرقانونی انداز میں ہٹایاتھا وہاں سے 99فیصد ووٹ حاصل کرلیے۔ جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا، مٹ رومنی کف اڑانے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ جولائی1996میں جب روس میں انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں، بورس یلسن کو شکست کا خوف سہمائے دے رہا تھا۔ گرمی میں مسلسل اضافے کے پیش نظر یلسن کو خدشہ تھاکہ گرمی سے بیزار اور سردی کے خوگر اسکے رہائشی حلقے کے باشندے انتخابات والے دن تک وہاں رکنے کی زحمت نہیں کریں گے اور ٹھنڈے علاقوں کو کوچ کر جائیں گے۔ روسی صدر کو ہرقیمت پر یہ عارضی نقل مکانی روکنی تھی۔

تبصرے بند ہیں.