آئی ایم ایف سے نیا قرضہ، پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 86 ہزار روپے کا مقروض ہوگا
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی طرف سے بین القوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)سے پانچ ارب سات کروڑ ڈالر کا قرضہ لینے کے بعد پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 86 ہزار روپے کا مقروض ہوجائیگا جبکہ اس وقت پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 78ہزارروپے فی کس کے حساب سے مقروض ہے۔ تاہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سمیت دیگر ڈونر اداروں سے ملنے والے مزید ایک ارب ڈالر سے زائد کے قرضوں کے بعد پاکستان کے ہر پیدا ہونیو الے بچے کے ذمے واجب الادا قرضہ 86 ہزار روپے فی کس سے بھی بڑھ کر 90 ہزار روپے فی کس کے لگ بھگ ہوجائیگا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار خود اپنی بجٹ تقریر میں اور پریس کانفرنسز میں اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضہ ساڑھے 14 ہزار ارب روپے ہوگیا ہے اور یہ قرضہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے لحاظ سے مقررکردہ حد سے بھی تجاوز کرچکا ہے جو کہ فسکل ریسپانسیبلٹی اینڈ ڈیبٹ لمیٹیشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے اس لحاظ سے جب آئی ایم ایف سے اگر5 ارب 30 کروڑ ڈالر کا کم ازکم قرضہ بھی مل جاتا ہے تو اس سے پاکستان کا قرضہ بڑھ کر 15 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرجائیگا اور اگرآئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کی قرضہ بڑھانے کی درخواست منظور کرلی جاتی ہے تو اس سے پاکستان کے ذمہ واجب الادا قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائیگا جسے کم کرنے کیلیے حکومت کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔حکام کا کہنا ہے کہ ابھی آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو پانچ ارب تیس کروڑ ڈالر قرضہ دینے پر اتفاق کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف سے درخواست کی گئی ہے کہ پاکستان کو 5ارب 7 کروڑ ڈالر کی بجائے 7 ارب روپے قرضہ دیا جائے اور اگر آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو 7 ارب ڈالر قرضہ دیا جاتا ہے تو اس صورت میں ہر پاکستانی کے ذمے واجب الادا قرضہ 92 ہزار روپے سے بھی تجاوز کرجائیگا۔ اس بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو ایک ساتھ پورا قرضہ نہیں ملے گا بلکہ تین سال کی مدت میں یہ رقم ملے گی اس لیے پاکستانیوں کے ذمے واجب الادا قرضہ ایک ساتھ بڑھ کر 86 ہزار روپے فی کس نہیں ہوگا بلکہ اس میں بتدریج اضافہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے کچھ قرضہ واپس بھی کیا جائیگا اور اسی طرح آبادی میں بھی اضافہ ہوگا جس سے ہر پاکستانی کے ذمے واجب الادا قرضے کی رقم میں بھی کچھ کمی واقع ہوگی، تاہم انکا کہنا ہے کہ حکومتی سطع پر جو قرضے لیے جاتے ہیں اسکی ذمے دار بھی حکومت ہی ہوتی ہے اور عوام کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی عوام ان قرضوں کی ذمے دار ہوتی ہے، البتہ ان قرضوں کے جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں انکا بوجھ ضرور غریب عوام پر پڑتا ہے جس سے عوام کے مسائل اور تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.