سپریم کورٹ کا کورونا سے متعلق یکساں پالیسی بنانے کےلئے حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام سے متعلق پر صوبوں اور وفاقی حکومت کو یکساں پالیسی بنانے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دے دیا۔چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام عدالت میں پیش ہوئے۔سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ جنرل بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے، دوران سماعت چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے حاجی کیمپ کے قرنطینہ مرکز سے متعلق استفسار کیا جس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ میں وہاں گیا تھا بستر اور پانی موجود تھا لیکن بجلی نہیں تھی، سیکریٹری صحت نے بتایا کہ دورہ کیا تو حاجی کیمپ قرنطینہ غیر فعال تھا، ایک کمرے میں پارٹیشن لگا کر 4 افراد کو رکھا گیا، جس پر چییف جسٹس نے استفسار کیا کہ بنیادی سہولیات کے بغیر پھر حاجی کیمپ میں قرنطینہ کیسے بنایا گیا، حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا جس پر ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز این ڈی ایم اے نے بنایا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں این ڈی ایم اے کی نمائندگی کون کررہا ہے،این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے لیکن اس میں کچھ واضح نہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر کا حال بھی حاجی کیمپ جیسا ہی ہے، پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں، جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب کی صورتحال بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے اس پر سیکریٹری صحت نے انکشاف کیا کہ روزانہ ایک ہزار کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں، کیسز مثبت آنے کی شرح 10 فیصد ہے، ٹیسٹنگ کٹس اور پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ(پی پی ایز) پر اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ماسک اور گلوز کے لیے کتنے پیسے خرچ کرنے کے لیے چاہیے ، اگر تھوک میں خریدا جائے تو 2 روپے کا ملتا ہے، ان چیزوں پر اربوں روپے کیسے خرچ ہورہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پتہ نہیں یہ چیزیں کیسے خریدی جارہی ہیں، لگتا ہے سارے کام کاغذوں میں ہی ہورہے ہیں،انہوں نے ریمارکس دیے کہ کسی چیز میں شفافیت نہیں، کووِڈ-19 کے اخراجات کا آڈٹ ہوگا تو اصل بات پھر سامنے آئے گی۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے، ادارے کیا کام کررہے ہیں؟ آپ لوگ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟ کورونا اخراجات کا آڈٹ کروایا جائے گا تو پتہ چلے گا اصل میں ہوا کیا ہے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں کورونا وائرس کی مریضوں کے ساتھ اموات بھی بڑھ رہی ہیں، صوبے میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ خطرناک ہے۔عدالتی بینچ میں شریک جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے ہیں وفاق سے ان کی تصدیق ضروری ہے اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ حکومت نے لاک ڈاو¿ن کا فیصلہ 2014 کے قانون کے تحت کیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت کا اختیار اسی حد تک ہے جو آئین دیتا ہے، وفاقی حکومت کے ریونیو کا راستہ صوبائی حکومتیں کیسے بند کرسکتی ہیں، کاروباری سرگرمیوں پر وفاقی حکومت ٹیکس لیتی یے تو صوبے اس پر پابندی کیسے لگاسکتے ہیں؟عدالت میں موجود ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ پنجاب میں 37صنعتیں کھولی گئی ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 37 صنعتیں کھول دیں باقی صنعتوں کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے، سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت دی جائے گی۔ریمارکس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کو کام کی اجازت ملنی چاہیے، لاکھوں دکانیں ہیں ہر کوئی کام کے لیے الگ الگ درخواست کیسے دے گا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اجازت دینے والوں سے پولیس والے تک سب کو ہی کچھ دینا پڑتا ہے، ایک دکان کھلوانے والے کو نہ جانے کتنے پیسے دینے پڑتے ہوں گے۔ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مسافر ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سفر کرنے کے لیے مال بردار ٹرک میں سفر کرنے پر مجبور ہیں، سفری پابندیوں کی وجہ سے مسافروں سے جہاز کے ٹکٹ کے برابر کرایہ وصول کی جارہا ہے، انہوں نے ریمارکس دیے کہ بین الصوبائی سروس شروع ہونی چاہیے، لوگ کراچی سے اسلام آباد 25 ہزار روپے کرایہ دے کر پہنچ رہے ہیں جو ہوائی سفر سے زیادہ مہنگا پڑرہا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے، ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں کورونا کے حوالے سے یکساں پالیسی بنائی جائے،یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے ، انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم عدالت میں شفافیت کی بات کررہے ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ تمام ایگزیکٹو ناکام ہوگئے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کسی کو احساس نہیں حکومتیں ایک ساتھ بیٹھیں بات کریں، کون ہے جو بات کرنے کو تیار نہیں؟ صوبوں کے درمیان تعاون کا آغاز ہونا چاہیے، اپنے ریمارکس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہھم سیلاب،زلزلے سے نکل آئے، اس مسئلے سے بھی نکل آئیں گے لیکن مسئلہ وفاق میں بیٹھے لوگوں کے متکبرانہ رویہ ہے، انا اور ضد سے حکومتی معاملات نہیں چلتے، ایک ہفتہ کافی ہے ورنہ عبوری حکم جاری کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت کا وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دیں گے، پتہ ہے کہ صوبائی وزیر کیا کہہ رہے ہیں یعنی ان دماغ بلکل آو¿ٹ ہے، دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں۔سپریم کورٹ بینچ میں شامل جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مساجد سے کرونا وائرس نہیں پھیلے گا؟ 90 فیصد مساجد میں ہدایات پر عمل نہیں ہو رہا اگر فاصلہ رکھنا ہے تو سب جگہ پر رکھنا ہوگا، پالیسی کہاں ہے؟جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت نے مارکیٹیں بند کرکے مساجد کھول دیں بازاروں میں لوگوں کو ڈنڈوں کے ساتھ مارا جا رہا ہے۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوں، چاہتے ہیں معاملہ اس حد تک نہ جائے کہ عدالت کو مداخلت کرنی پڑے، انہوں نے کہا کہ آج کل ٹی وی دیکھیں تو لگتا ہے ملک میں سیاسی جنگ چل رہی ہے، سیاسی معاملات بہتر ہوگا عدالت سیاستدانوں کو ہی حل کرنے دے، وفاق کے اختیارات پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے، جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ کیا شہریوں کی اموات پر سوال پوچھنا ہماری آئینی ذمہ داری نہیں؟ باہر کون کیا کہتا ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورونا وائرس اس وقت عروج پر ہے جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ کورونا وائرس ہاتھوں سے نکل رہا ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورونا سے متعلقہ سہولیات میں کوئی کمی نہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں، سفید ہوش افراد راشن کے لیے لائن میں نہیں لگتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت اور وزیراعظم ہوں گے لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، جن شعبہ جات کو کھولا گیا ان کا عوام کو کیا فائدہ ہوا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ چھوٹی تجارتی سرگرمیوں کو بھی کھولنے پر غور کیا جائے گا، قومی سلامتی کے 9 مئی کے اجلاس میں حتمی فیصلے ہوں گے اور ریلوے کو کھولنے کے شیڈول پر بھی غور ہورہا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی ایئرلائن (پی آئی اے) ہزاروں ڈالر کا کرایہ لیتی ہے لیکن جہاز میں سماجی فاصلے کے لیے ایک نشست خالی نہیں چھوڑی جاتی ، انہوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پولیس کو شہریوں سے بدتمیزی کی اجازت نہ دی جائے، لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بغیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا، جو ہسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا، ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہسپتال سے لاش وصول کرنے کے لیے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں، چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کرپشن کس حد تک جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، قومی احتساب ادارہ (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کیا کررہے ہیں، احتساب کا ایک اور ادارہ بنایا تو کرپشن کی رفتار مزید تیز ہوجائے گی، راشی لوگ شرافت کے لبادے میں نہ جانے کیا کچھ کر رہے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ لوگوں میں انسانیت ختم ہوگئی صرف گوشت کا ٹکڑا رہ گیا، کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلانے جا سکتے ہیں؟ ابھی کسی کرپٹ بندے کو عدالت بلائیں دیکھیے گا کیسے جھوٹ بولے گا، ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جو لوگ زکوٰة اور صدقے کا پیسہ کھاجائیں ان سے کیا توقع رکھیں گے، آڈیٹر جنرل کے مطابق زکوة اور بیت المال کا پیسہ کرپشن کی نظر ہوگیا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بیت المال کے فنڈ میں کرپشن یا غبن نہیں ہوئی، آڈٹ حکام نے 54 اعتراضات عائد کیے تھے 48 کے جواب آ گئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ریکوری ہوئی کیا یہ کرپشن نہیں تھی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مریض کے لیے مختص کیے جانے والے جو پیسے استعمال نہیں ہوئے وہ ریکوری میں ڈالے گئے۔سپریم کورٹ نے زکوٰة اور بیت المال فنڈز میں کرپشن پر وفاقی و صوبائی و حکومتوں سے جواب طلب کرلیا جبکہ کرپشن کیس نیب یا ایف آئی کو دینے کا فیصلہ آئندہ سماعت میں کیا جائے گا۔خیال رہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہیں رواں برس محکمہ زکوٰة اور بیت المال کے مشترکہ طور پر آڈٹ کیے گئے 5 ارب 96 کروڑ کے مجموعی فنڈ میں 3 ارب 67 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا علم ہوا۔کورونا وائرس سے متعلق چیف جسٹس نے تشویش کا اظہار کیا کہ خیبرپختونخوا میں صورتحال اچھی نہیں وہاں اموات میں اضافہ ہورہا ہے، دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا خیبرپختونخوا میں کلینک کھل گئے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواہ نے بتایا کہ صوبے میں تقریباً تمام علاقے کھول دیے گئے ہیں، اپنے ریمارکس میں جسٹس سجاد علی شاہ نے مزید کہا کہ ڈاکٹر ہوٹلوں میں جاکر مریضوں کا معائنہ کررہے ہیں، جو کلینک ایس او پی پر عمل نہیں کریں گے وہ نہیں کھلیں گے، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا میں پولیس کی جانب سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ افراد پر تشدد کیا گیا کیا خیبرپختونخوا پولیس بے مہار ہے؟انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے کنسلٹنٹ کے ساتھ بدسلوکی کی، ڈاکٹر کنسلٹنٹ بننے کے لیے 20 سال لگتے ہیں، پولیس کو لائسنس دے دیا گیا جس کی مرضی گردن پکڑ لیں، جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا واحد صوبہ ہے جہاں ڈاکٹرز پر تشدد کرکے لہو لہان کیا گیا، سیکریٹری صحت ڈاکٹر نہیں ہیں، اسی وجہ سے صوبے میں صحت کے شعبے کا یہ حال ہے۔سپریم کورٹ نے وفاقی معاملات میں صوبائی حکومتوں کی مداخلت پر وفاق اور صوبوں سے دلائل طلب کرلیے عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر دلائل سن کرفیصلہ کریں گے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے ملک میں کورونا وائرس سے متعلق اقدامات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے 10 اپریل کو ملک میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس لیا تھا، چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس پر 13 اپریل کو پہلی سماعت کی تھی۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور یہ تعداد20 ہزار 5 سو 73 تک پہنچ گئی ہے جبکہ اب تک476 اموات بھی ہوئی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.