امریکا طالبان امن مذاکرات ختم، ٹرمپ نے آج کیمپ ڈیوڈ میں ہونیوالی خفیہ ملاقات بھی منسوخ کرتے ہوئے کہاکہ بامقصد معاہدے کیلئے جنگ بندی ضروری، طالبان کتنی دہائیاں لڑینگے، کیسے لوگ ہیں جو سودے بازی میں مستحکم پوزیشن کیلئے لوگوں کو قتل کرتے ہیں،شاید طالبان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ بامقصد معاہدے کے لیے کوئی مکالمت کر سکیںاس پر طالبان کاکہناتھاکہ ٹرمپ کے فیصلے سے زیادہ نقصان امریکا کا ہوگا،ادھر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہاہےکہ امید ہے طالبان رویہ بدلیں گےاور بات چیت کے ذریعے معاملہ حل ہوجائیگا، دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہاکہ قیام امن کیلئے طالبان اپنے حملے ترک کر کے ہم سے براہ راست بات چیت کریں، مزید برآں کابل میں شہریوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ نے اچھا فیصلہ کیا، مذاکرات صرف افغانوں کے درمیان ہونا چاہئیں تاکہ مذاکرات کےبارے میں ہمیں علمہو۔تفصیلات کےمطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دیے ہیں، یہ فیصلہ کابل میں ایک امریکی فوجی سمیت 12افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے اس حملے کے بعد کیا گیا جس کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی تھی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ دوحہ میں ہونے والے امریکی مذاکرات کے نتیجے میں امریکا میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر ایک خفیہ سربراہی ملاقات بھی کرنے والے تھے، انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے کئی پیغامات شائع کیے اور کہا کہ وہ آج اتوار8ستمبر کو امریکا ہی میں افغان صدر اشرف غنی اور طالبان کے رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ لیکن ایک غیر اعلانیہ سمٹ میں ملاقات کرنے ہی والے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھاوہ کس طرح کے لوگ ہوں گے جو مذاکرات کے دوران صرف سودے بازی کی خاطر بظاہر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے اتنے زیادہ انسانوں کی جانیں لے لیں گے؟‘‘ ساتھ ہی امریکی صدر نے مزید لکھا، وہ (طالبان) اگر ان انتہائی اہم مذاکرات کے دوران فائر بندی پر آمادہ نہیں ہو سکتے اور 12 معصوم انسانوں کی جانیں لے سکتے ہیں تو پھر شاید ان میں اتنی طاقت ہی نہیں کہ وہ ایک بامقصد معاہدے کے لیے کوئی مکالمت کر سکیں۔‘‘ادھر افغان طالبان نے کہا ہے کہ امن مذاکرات کی معطلی کے امریکی فیصلے سے مزید امریکی جانوں اور اثاثوں کا ضیاع ہو گا۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ اس پیش رفت سے سب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہی اٹھانا پڑے گا۔دوسری جانب افغانستان میں صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قیام امن اسی صورت میں ممکن ہے جب طالبان جنگجو اپنے حملے ترک کردیں اور کابل حکومت کے نمائندوں سے براہ راست بات چیت کریں۔ صدارتی دفتر کے اس بیان میں امریکا اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا بھی ذکر کیا گیا ۔ادھر غیر ملکی خبررساں ادارے کےمطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مذاکرات میں واپسی کے امکان کو مسترد نہ کرتے ہوئے کہاکہ امریکا طالبان سے جامع عہد چاہتا ہے ، میں مایوس نہیں ہوں،مجھے امید ہے کہ طالبان اپنا رویہ بدلیں گے، اور آخر میں بات چیت کے ذریعے ہی معاملات حل کر لیے جائینگے، انہوں نے کہاکہ ٹرمپ نےافغانستان سے فوج نکالنے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تاہم اگر طالبا ن نے حملے جاری رکھے تو ان پردباؤ بڑھایاجائیگا۔دوسری جانب کابل کے شہریوں نے ٹرمپ کے فیصلے پر اظہار خیال کیاکہ امریکی صدر نے مذاکرات منسوخ کرکے اچھا فیصلہ کیا کیوںکہ کوئی بھی مذاکرات افغانوں کے بغیر نہیںہونا چاہئیں، مذاکرات بین الافغان ہوں اور اس کی تفصیلات سے عوام آگاہ ہوں۔
تبصرے بند ہیں.