معروف امریکی مصنف اور محقق ڈینئل ایس مارکی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امریکا اور پاکستان میں لڑائی نہ صرف حماقت بلکہ انتہائی خطر ناک اور خوفناک ہوگی۔ دونوں ممالک کے پاس ایک دوسرے سے تعاون کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
محقق اور مصنف ڈینئل ایس مارکی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں “نو ایگزٹ فرام پاکستان،امریکاز ٹارچرڈ ریلیشن شپ وِد اسلام آباد” نامی کتاب لکھی ہے ایس مارکی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کو ایک ہی طرح کے خطرات کا سامنا ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے ایک کی کارروائی دوسرے کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ پاکستان امریکا کے لئے جیواسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف چین ہے تو دوسری جانب افغانستان۔ پاکستان جہادیوں کیلئے جنت جیسا مقام ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن پر پاکستانی حکام کو خفت کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان میں امریکا کے بجائے چین کو اتحادی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا جانے لگا۔ مارکی نے اپنی کتاب میں پاکستان میں امریکا سے نفرت کی تین وجوہات بیان کی ہیں۔ ان کے مطابق لبرل افراد فوجی حکمرانوں کی مدد پر امریکا سے ناراض ہیں۔ دوسری وجہ قوم پرست سیاستدانوں کی ہے، جن کے خیال میں امریکا نے ضرورت کے وقت پاکستان کا ساتھ نہیں دیا۔ مارکی کے مطابق تیسری وجہ جہادی ہیں، جو امریکا کے سخت خلاف ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات پر بھی تین نظریات پیش کئے ہیں۔ انکا کہنا ہے امریکا کے پاس پہلاراستہ اسے خطے میں الگ تھلگ کر دینے کا ہے۔ خطے کے ملکوں سے تعاون بڑھایا جائے اور ڈرون حملوں کے ذریعے اسے ڈرایا جائے لیکن اس طرح پاکستانی اس سے مزید دور ہو جائیں گے۔ مارکی کے مطابق دوسرا راستہ فوج سے تعلقات استوار کرنا ہے لیکن ماضی کے تجربوں کے پیش نظر یہ طریقہ بھی کامیاب نہیں۔ دوسرے اس طرح قوم کی نظر میں فوج کی عزت بھی کم ہو جائے گی۔ تیسرا راستہ پاکستان کے ساتھ تعاون ہے۔ یہ پہلے دو طریقوں سے بہتر ہے۔ پاکستان کے اداروں کو مضبوط کیا جائے، صدر اوباما یہ کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی کامیابی نہیں ہوئی۔ یہ طریقہ چیلنجوں سے بھرپور ہے۔ ڈینئل نے نتیجہ نکالا ہے کہ امریکا کو ان میں سے کوئی راستہ چننا ہو گا۔
تبصرے بند ہیں.