قطر نے امریکا کی جانب سے ایران سے تیل کی خریداری پر دی گئی مہلت ختم کرنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔قطری وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی فیصلے سے عالمی معیشت پر مثبت نہیں بلکہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔قطری وزیرخارجہ نے کہا کہ ایران سے تیل خریدنے پرپابندی کے فیصلے کا خود امریکا کو نقصان پہنچے گا۔ اس کے علاوہ ایرانی تیل پرانحصار کرنے والے ممالک براہ راست امریکی فیصلے سے متاثر ہوں گے۔انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ وہ ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندی کا فیصلہ واپس لے۔ محمد عبدالرحمان آل ثانی نے مزیدکہا کہ قطر امریکا کی طرف سے ایران پریک طرفہ پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ امریکی فیصلے سے خطے میں جاری بحرانوں کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا بحرانوں کو حل اور اختلافات دور کرنا چاہتا ہے تو اسے مذاکرات کی میز پرآنا ہوگا۔یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کو منسوخ کردیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی جس کے بدلے اس پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں نرم کردی گئی تھیں۔ٹرمپ انتظامیہ ایران سے نیا معاہدہ چاہتی ہے جس میں جوہری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بیلسٹک میزائل پروگرام کو محدود کرنے کی شرط بھی شامل ہوگی تاہم ایران اس کیلئے تیار نہیں۔ایران پر دباؤ بڑھانے کیلئے امریکا نے گزشتہ برس نومبر میں ایرانی معیشت کو جلا بخشنے والے اہم شعبوں جن میں توانائی، جہاز سازی، جہازرانی اور بینکنگ سیکٹرز شامل ہیں، دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔تاہم ایران سے خام تیل خریدنے والے 8 اہم ممالک کو چھ ماہ کا استثنیٰ دیا گیا تاکہ وہ متبادل ذرائع سے تیل خریدنے کا انتظام کرلیں اور اچانک سے عالمی منڈی پر طلب کا دباؤ نہ پڑے، ان ممالک میں چین، بھارت، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، ترکی، اٹلی اور یونان شامل ہیں۔ یہ چھوٹ 2 مئی کو ختم ہوگئی ہے۔ایران پرعائد امریکی پابندیوں کے باوجود جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، چین اور بھارت ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھے ہوئے تھے تاہم اب امریکا کی جانب سے ان ممالک کو کہا جا رہا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی خریداری روک دیں بصورت دیگر انہیں پابندیوں کا سامنا ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.