دہشتگردی کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہوتا ہے تو خوشی ہوگی لیکن طاقت کا استعمال آخری آپشن ہے، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ اگر مذاکرات سے حل ہوتا ہے تو اس سے سب سے زیادہ خوشی پاک فوج کو ہوگی لیکن بہرحال طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاک فوج کے 128ویں لانگ کورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا کہ میرے لئے آپ کے درمیان ہونا اور پاسنگ آؤٹ پریڈ کا معائنہ کرنا باعث مسرت ہے، میں کمیشن حاصل کرنے والے کیڈٹس اور ان کے والدین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہا ہے، قوموں کی تاریخ میں مشکل دور آتے رہتے ہیں لیکن جو قومیں چیلنجز کو قبول کرتی ہیں وہی ابھر کر سامنے آتی ہیں اور جو مایوسی کا شکار ہوجاتی ہیں تباہی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے غلطیاں ضرور کیں جس کے باعث ہم اس مقام پر نہیں پہنچ سکے جہاں ہمیں آج ہونا چاہئے تھا لیکن ہم نے اچھے کام بھی ضرور کئے اور اسی لئے آج پاکستان آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور بانی پاکستان نے ہماری سمت کا تعین کردیا تھا لیکن ہم نے سب سے پہلی غلطی یہ کی کہ ہم بابائے قوم قائد اعظم کے زریں اصول بھول گئے اور عوام کی فلاح وبہبود کو پس پشت ڈال دیا، مختلف ریاستی اداروں میں تعاون اور باہمی اشتراک کی کمی کے باعث ملک کو نقصان ہوا حالانکہ سول اور عسکری اداروں میں باہمی روابط اورایک دوسرے پر انحصار لازمی ہے اور ملک تب ہی ترقی کرے گا جب ادارے مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ناہمواری کی وجہ سے امیر شخص امیر ترین اور غریب مزید غریب ہوگیا لیکن ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ تمام تر غلطیوں کے باوجود ہم نے اس ریاست کو اچھا اور مضبوط بنانے کی کوشش نہیں چھوڑی اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ایک بہتر مستقبل کی تعمیر کے لئے ضروری ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کہنا تھا کہ ہمیں کھلے دل سے یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ملک کے موجودہ مسائل کا حل کسی ایک شخص یا گروہ کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی یہ مسائل چند ماہ یا چند سال میں حل نہیں ہوں گے بلکہ اس کے لئے کافی وقت درکار ہوگا اور مسائل کے حل کے لئے ہرفرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم دنیا کی ساتویں بڑی فوجی قوت ہیں او مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت، پاکستان کے نظریہ اپنی اثاث میں انتہائی جمہوری ہے اور جو حلقے ہمارے نظریات کو متنازع بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنی ان کوششوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے اور فوج جمہوریت کے استحکام کے لیے کردار ادا کرتی رہے گی۔ مئی 2013 میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے آرمی چیف نے کہا کہ انتخابات کے نتائج کو تمام جماعتوں اور طبقات نے قبول کیا اور جمہوریت کے تسلسل کو قائم رکھا، 1970 کے بعد عوام نے ان انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے اور فوج نے دیگر اداروں سے مل کر انتخابی ماحول کو سازگار بنایا۔ انہوں نے کہا کہ قوم مختلف تجربات سے گزرتی رہی ہے لیکن آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ عوام کی قسمت کے فیصلے ان کی اپنی منتخب قیادت کر رہی ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک بڑا چیلنج ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی قیادت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کا فیصلہ کیا جس کی پاک فوج نے حمات کی، اگر دہشت گردی کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہوتا ہے تو سب سے زیادہ خوشی پاک فوج کو ہوگی لیکن قوت کا استعمال بہرحال آخری آپشن ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے مشکل حالات میں دہشت گردی کے خلاف اپنا رول ادا کیا لیکن پھر بھی یہ رائے سامنے آتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناکامی کے بعد مذاکرات ہورہے ہیں جو کہ غلط ہے، آج سوات میں مکمل امن ہے جس کے گواہ خود سوات کے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اداروں پر تنقید ضرور کی جائے لیکن تضحیک سے گریز کیا جائے کیونکہ جہاں تضحیک کی جاتی ہے وہاں ادارے کمزور ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا بھی غلط ہے کہ دفاعی اخراجات قومی بجٹ کا 80 فیصد ہیں، یہ 80 فیصد نہیں بلکہ 18 فیصد ہیں۔

تبصرے بند ہیں.