بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بغیر الزام یا مقدمے کے مشتبہ شخص کو دو سال تک قید رکھنے کا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ بھارتی اور عالمی انصاف کی خلاف ورزی ہے۔ مقبوضہ وادی میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری شورش کے دوران ہزاروں افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ جموں و کشمیر کے فوجداری نظام کیساتھ مذاق اور احتساب، شفافیت اور انسانی حقوق کے احترام کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کے مطابق یہ قانون بھارتی اور عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے خلاف اور مقبوضہ وادی میں حکام اور شہریوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ 44 صفحات کی اس رپورٹ میں 2012 سے 2018 کے دوران 210 قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 70 فیصد مقدمات میں قیدیوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار اور ایک جیسے الزامات کی بنیاد پر فوجداری کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔معروف سیاسی کارکن مسرت عالم ابھی تک جیل میں ہے ، اس کے باوجود کہ عدالتیں 38 مرتبہ اس کی نظر بندی کے احکامات منسوخ کر چکی ہیں۔ ظہور وانی کے مطابق پولیس ایسے مشتبہ افراد کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کو ایک حفاظتی پھندے کے طو رپر استعمال کرتی ہے جوکہ ضمانت پر رہا ہو چکے ہوں، یا جنہیں ضمانت مل سکتی ہو۔گفتگو کے دوران مقامی وکلا نے بتایا کہ ریاستی پولیس عدالتی کارروائی کی حامی نہیں، کیونکہ اس میں ٹھوس ثبوت پیش کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ چار عشرے قبل ٹمبر سمگلروں سے نمٹنے کیلئے نافذ کیا گیا تھا، مگر 1989میں جب کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی، اس قانون کا دائرہ کار وسیع کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس رپورٹ سے متعلق سری نگر میں پریس کانفرنس کرنا تھی، مگر پولیس نے سکیورٹی خدشات کو جواز بنا کر اس کی اجازت نہ دی۔ اس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے رپورٹ صحافیوں کو ارسال کرنے کے علاوہ ویب سائٹ پر ڈال دی۔ پٹیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ رپورٹ جاری کرنے سے قبل پولیس اور ریاستی حکومت کیساتھ شیئر کی گئی تھی، مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔نیوز ایجنسی کے رابطے پر حکام نے رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔

تبصرے بند ہیں.