ایشیائی ملک برونی نے سیاستدانوں، مشہور شخصیات اور انسانی حقوق کے گروپس کی جانب سے عالمی تنقید کے باوجود ملک میں سخت شرعی قوانین متعارف کردیا، جس کے تحت زنا اور ہم جنس پرستی میں ملوث افراد کو سنگسارکرنے کی سزا دی جائے گی۔ ٹروپیکل برنیو جزیرہ پر واقع اس چھوٹے سے ملک پر طاقتور سلطان حسن البلقیہ کی حکمرانی ہے اور یہ نئی پینل کوڈ (تعزیرات) کئی برسوں کی تاخیر کے بعد نافذ ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ سنگسار کی سزا میں آدمی کو زمین میں گاڑ کر اس وقت تک پتھر مارے جاتے ہیں جب تک وہ مر نہیں جاتا۔ان قوانین میں چوروں کے لیے ہاتھ اور پاؤں کاٹنے کی سزا بھی شامل ہے، جس کے بعد برونی مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیا میں پہلا ملک بن گیا ہے جہاں قومی سطح پر شرعی تعزیزات کو نافذ کیا گیا، جو زیادہ تر سعودی عرب جیسے مشرق وسطی کے ممالک میں موجود ہیں۔مختلف نئے قوانین اور تعزیزات کے تحت عصمت ریزی اور ڈکیتی کی سزا بھی موت ہوگی، جیسا کہ نبی کریم ؐکی شان میں گستاخی کی سزا موت ہے، جو تمام غیر مسلم سمیت مسلمانوں پر بھی لاگو ہوگی۔علاوہ ازیں مسلم کلینڈر میں خصوصی تاریخ کے دن کے طور پر ایک عوام سے خطاب میں سلطان حسن البلقیہ نے اسلامی تعلیمات کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا لیکن نئی تعزیزات کا ذکر نہیں کیا۔دارالحکومت بندر سیری بیگاوان کے قریب کنویشن سینٹر میں خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’میں اس ملک میں اسلامی تعلیمات کو مضبوط ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں‘۔5 دہائیوں سے زائد عرصہ سے راج کرنے والے سلطان حسن البلقیہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ برونی ایک ’منصفانہ‘ ملک ہے اور یہاں آنے والوں کے لیے ماحول ’پرامن اور ہم آہنگ‘ ہے۔واضح رہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک اور سونے اور ہیروں کے محل میں رہنے والے سلطان نے 2013 میں ان قوانین کے لیے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔جس کے بعد 2014 میں پہلا سیکشن متعارف کروایا گیا تھا جس میں کم سخت سزا شامل کی گئی تھیں، جیسا کہ نامناسب رویہ یا نماز جمعہ چھوڑنے پر جرمانے یا جیل کی سزا تھی۔تاہم ان نئے قوانین پر عالمی سطح پر برونی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور مختلف اداروں کی جانب سے اس کی مذمت کی جارہی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے ان قوانین کو ’ظالمانہ اور غیر انسانی‘ قراد دیا گیا ہے جبکہ اداکار جارج کلوونی اور پاپ اسٹال الٹن جوہن کی قیادت میں مشہور شخصیات نے برونی کی زیر ملکیت ہوٹلس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔جارج کلونے کی جانب سے یورپ اور امریکہ میں برونی کی زیر ملکیت 9 ہوٹلوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا تھا اور گزشتہ ہفتے یہ معاملہ بین الاقوامی شہ سرخیوں کی زینت بنا تھا۔اس کے بعد سے کئی نامور شخصیات اس مہم میں شامل ہوئی تھیں اور انہوں نے مذمت کرنے والوں میں اپنا نام بھی درج کروایا تھا۔یورپین یونین کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ کچھ نئی سزائیں ’تشدد رقم کرنے، ظالمانہ عمل، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک‘ کی ہیں۔یہ بات واضح رہے کہ ان نئے قوانین کے اطلاق سے قبل برونی میں مردوں کے درمیان جنسی تعلق (یعنی ہم جنس پرستی) پہلے ہی غیر قانونی تھی اور اس کی سزا 10 سال تک جیل تھی۔تاہم نئے قوانین نے مردوں کے درمیان سیکس کی سزا کو سنگسار میں تبدیل کردیا جبکہ خواتین کے دوسری خواتین کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کی سزا 40 کوڑوں یا زیادہ سے زیادہ 10 سال جیل ہوگی۔اسلامی قوانین کے نفاذ پر امریکہ سمیت کئی مغربی ملکوں نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے کہا ہے کہ غیر انسانی اور تشدد پر مبنی سزائیں قطعی طور پر قابلِ قبول نہیں اور یہ اقدام انسانی حقوق کے چارٹرکے منافی ہے جس پر برونی نے بھی دستخط کئے ہیں۔برونی میں اسلامی قوانین کے نفاذ پر اقوامِ متحدہ نے بھی سخت ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور ان قوانین کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.