لاہور (قیصر مغل /سپیشل رپورٹر) آٹا سکینڈل میں نام آنے پراز خود عہدہ چھوڑنے والے 21 ویں گریڈ کے سابق کمشنر ڈی جی خان نسیم صادق نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں بہت سے ابہام ہیںاور اس رپورٹ میں زمینی حقائق کو یکسر نظر انداز کیاگیاہے ، یہ رپورٹ آٹا مافیا کو بچانے کےلئے آٹا بحران کو گندم خریداری مہم سے نتھی کرنے کی بھونڈی کوشش ہے ۔ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان کو اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کے حوالے سے تفصیلی جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 22 جنوری 2020 ءکو بنائی گئی انکوائری کمیٹی میں مجھ پر لگائے گئے الزامات کی اصل حقیقت اس طرح ہے ، انہوںنے کہا ہے کہ رپورٹ میں 2019-20 ءمیں گندم خریداری میں 22 دن کی تاخیر کا الزام لگایا گیا ہے جس کی اصل حقیقت یہ ہے گندم خریداری مہم 8 اپریل 2019 ءکو شروع ہوئی جبکہ میں سیکرٹری فوڈ کا عہدہ 16 اپریل 2019 ءکو سنبھالا تھا اور میں کیسے گندم خریداری مہم کو 22 دن کی تاخیر سے شروع کر سکتا ہوں جو میرے عہدہ سنبھالنے سے ہی 8 دن پہلے شروع ہو چکی تھی ۔دوسرا الزام یہ تھا کہ پولٹری فیڈ ملز کوگندم خریداری کی اجازت دی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پولٹری فیڈملز نے میری تعیناتی سے قبل ہی پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور پاسکو سے کنٹرولڈ ریٹ کے مطابق خریدی گندم خریدی اور میری تعیناتی کے 62 دنوں میں ایسی کوئی منظوری نہیں دی گئی ۔مجھے پر یہ بھی الزام لگایا کہ گندم خریداری کا ٹارگٹ پورا کرنے میں ناکام رہا لیکن اس کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ صوبائی کابینہ نے 23 مئی 2019 ءکو گندم خریداری روکنے کاحکم دیا تھا کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں گندم خریداری مہم 40 لاکھ میٹرک ٹن تک نہیں پہنچی تھی باوجود اس کے کہ بمپر کراپس ہوتی رہیں ، اور یہ ضرورت سے کہیں زیادہ تھی ، جبکہ دوسری طرف گندم کی فصل کی آمد کے ابتدائی دنوں میں حکومت کو قیمتوں میں استحکام کے حوالے سے مارکیٹ میں مثبت اشارے بھیجنے کے لئے نفسیاتی نوعیت کا زیادہ فائدہ تھا ۔ایک اور الزام یہ ہے کہ پنجاب میں گندم خریداری مہم ناکام ہو گئی تھی اور اس کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ پنجاب حکومت نے سرکاری طور پر اور عوام کے سامنے اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ گندم خریدرای مہم 2019-20 ءایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اسکی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ آج 8 اپریل 2020 ءکو بھی 6 لاکھ 30 ہزار ٹن گندم پنجاب کے گوداموں میں پڑی ہے جبکہ نئی گندم خریداری مہم ابھی شروع ہوئی ہے ۔ ایک الزام یہ بھی ہے کہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ فلور ملوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو ا جس کی وجہ سے آٹا مہنگا ہوا ، جبکہ یہ میرے 62 دن کے ٹنیور میں نہیں ہوا اور یہ آٹا بحران کے دنوں سے متعلق ہے اور نہ ہی گندم خریداری مہم 2019-20 ءکے دوران آتا بحران پیدا ہو ا، میرے ٹنیور میں گندم خریداری مہم پر انتہائی سخت کنترول تھا جس کا بڑا ثبوت بڑے پیمانے پر مقدمات کا اندراج ، چھاپے ، اور سیل کرنے کے شواہد موجودہیں ۔رپورٹ میں ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرول افسران کے تین بار تبادلے کئے اور اس بارے میں حقیقت یہ ہے کہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے سابق سیکرٹری جو 12 مارچ 2017 سے 14 اپریل 2019 تک تعینات رہے انہوں نے 27 مارچ 2019 کو 35 ڈسٹرکٹ فوڈز کنٹرولر کے تبادلے کئے ، میری تعیناتی 16 اپریل 2019 کو بطور سیکرٹری فوڈ پنجاب ہوئی اور 19 جون 2019 ءتک اس عہدہ پر تعینات رہا لیکن اس دوران میں نے کسی ڈی ایف سی کا تبادلہ نہیں کیا، ظفر نصر اللہ 19 جون 2019 ءسے 29 نومبر 2019 ءتک تعینات رہے اس دوران 32 ڈی ایف سی کا تبادلہ کیا گیا ، وقاص علی محمود نے 30 نومبر کوسیکرٹری فوڈ پنجاب کا عہدہ سنبھالا اور تاحال تعینات ہیں اور انہوں نے 23 ڈی ایف سی کے تبادلے کئے
تبصرے بند ہیں.