وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ میری اطلاعات کے مطابق آڈیو لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم نے نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقات کا آغاز ہو چکا ہے، وزیر اعظم واپس آ کر کابینہ کے ساتھ اس پر مشاورت کریں گے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ آڈیو لیکس معاملے پر انکوائری ایسی ٹیم سے ہونی چاہیے جس میں تمام ایجنسیوں کے اعلیٰ سطح کے نمائندے ہوں۔وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو بھی آڈیو یا ویڈیو لیکس ہوئی ہیں یا جس نے بھی ان کو ریکارڈ کیا ہے ان سے ہماری بہتر گورننس، آزاد اور شفاف کام کرنے کا تصور سامنے آ رہا ہے اور اس آڈیو میں وزیر اعظم کے الفاظ سے بھی یہ بات واضح ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اس آڈیو کے علاوہ ہم تین چار وزرا جو آپس میں میٹنگ کے دوران بات کر رہے ہیں وہ معمول کی باتیں ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس کے علاوہ میرے دفتر میں بھی دو مرتبہ ہوئی ہیں، اس کے علاوہ پارلیمنٹ لاجز اور اسپیکر چیمبر میں بھی یہ اسی طرح سے گفتگو ہوئی ہے مگر آڈیو کیسے ریکارڈ کی گئی اس پر تحقیقات ہونی ہے۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ آڈیو لیکس سے یہ بات اخذ نہیں کی جاسکتی کہ وزیر اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی بریک ہوئی ہے کیونکہ آج کل نجی کمپنیاں اور لوگ بھی فون ہیک کر لیتے ہیں اور ہم پانچ میں سے کسی ایک کا فون ہیک ہے تو ساری گفتگو سنی جا سکتی ہے مگر یہ بات تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی کہ آڈیو کس نے ریکارڈ کی۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی ایسی نوعیت کی بات کرنی ہو کہ وہ بات ٹیپ نہ ہو یا ریکارڈ نہ ہو تو ایسی صورتحال میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ موبائل فونز باہر رکھے جائیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک ثابت نہیں ہوتا کہ آڈیو لیک کہاں کی ہے کیسے ریکارڈ ہوئی تب تک اس کو اتنا سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ بات اگر تحقیقات سے ثابت ہوتی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس میں بات کرنا محفوظ نہیں اور کسی نے بھی وہاں ایسا کوئی آلہ نصب کیا ہے تو یہ سنجیدہ معاملہ ہے لیکن اس بات کو بغیر کسی تحقیقات کے تسلیم کرلینا مناسب بات نہیں۔وزیراعظم ہاؤس کی لیک آڈیوز کی موجودگی پر پوچھے گئے سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ سیکڑوں آڈیوز بھی نکل آئیں تو کوئی لفظ ایسا نہیں ہوگا جس پر ہمیں شرمندگی ہو۔
تبصرے بند ہیں.