اسلام آباد: ماہر قانون علی ظفر کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں فارن فنڈنگ کی کوئی بات نہیں۔جیونیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ واضح ہوگیا کہ کیس فارن فنڈنگ کا نہیں اس لیے فارن فنڈنگ والا بیانیہ تو ختم ہوگیا، الیکشن کمیشن نے ایسی کوئی بات نہیں کی، فارن فنڈنڈ پارٹی کیس وہ ہوتا ہے کہ باہر کی حکومت یا ادارہ پارٹی بنائے اور چلانے کے لیے فنڈنگ کرے۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کا دوسرا پہلو پارٹی کے اکاؤنٹنگ کا معاملہ ہے، اکاؤنٹنگ کے معاملے میں پارٹی فنڈنگ میں اگر ممنوع فنڈز ہوں تو ضبط ہوجاتے ہیں، فنڈز جمع کرنے والے کو پتا ہوتا ہے کہ کس سے فنڈز لیے گئے یہ پارٹی کو نہیں پتا ہوتا، یہ صرف اکاؤنٹنگ کے معاملات کو الیکشن کمیشن نے دیکھا ہے۔ماہر قانون کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے بہت سے اکاؤنٹس اور ٹرانزیکشن دیکھی ہیں،کچھ ٹرانزیکشن پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ غیر ملکیوں نے دیے اس لیے ضبط کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اکاؤنٹنگ کے معاملے میں اکاؤنٹس کی ضبطگی کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔علی ظفر نے کہا کہ فیصلے کا تیسرا پہلو پارٹی ہیڈ کے سرٹیفیکٹ سے متعلق ہے، پارٹی یا ادارے کا سربراہ اکاؤنٹس سے متعلق چارٹرڈ اکاونٹنٹ پر بھروسہ کرتے ہیں، پروفیشنلز سارے اکاؤنٹس دیکھتے ہیں اور پارٹی سربراہ ان معلومات پر سرٹیفیکٹ دیتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں علی ظفر نے کہا کہ نوازشریف کے حلف میں اور اس کیس میں لیگل اور فکچوئل بڑا فرق ہے، بیان حلفی مختلف ہے، سربراہ خود اکاؤنٹس کو دیکھے اور بیان حلفی دے، سرٹیفکیٹ میں پروفیشنلز پر ریلائی کیا جاتا ہے، سرٹیفکیٹ کے معاملے پر آئین کا آرٹیکل 62 اور63 لاگو نہیں ہوتا، یہ اکاؤنٹس کا مسئلہ ہے کوئی بھی بنائے کچھ غلطیاں ہوں گی جو بعد میں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.