اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ پر حکومتی اتحایدوں کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی آج دوبارہ سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کے رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر پر ڈپٹی رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے پر فیصلہ ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا،آپس میں مشاورت کریں گے، کیس فل کورٹ سنے گی یا یہی بنچ سنے گا۔وقفے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومتی اتحادیوں اور پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ تین رکنی بینچ ہی سماعت کرے گا۔سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کیس کو میرٹ پر سنیں گے، ہم نے معاملہ کا جائزہ لیا ہے، چودھری شجاعت اور پیپلز پارٹی کے فریق بننے کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔ آگے چل کر دیکھیں گے فل کورٹ بنچ کا کیا کرنا ہے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے یہ ہی احکامات ہیں، معاملہ فل کورٹ میں سنا جائے۔ میں نے استدعا کی فل کورٹ بنچ بنانے سے عدالتی تکریم میں اضافہ ہو گا۔ اگر نظر ثانی منظور ہوئی تو بات پہلے والی صورتحال پر چلی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئین کو دیکھنا ہے۔ آرٹیکل 63 اے کا طویل سفر ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کو گھر بھیجا، آپ نے پہلے کبھی بنچ پر اعتراض نہیں کیا۔ اس پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں۔ اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ معذرت نہیں کرتے آپ مٹھائیاں بانٹتے ہیں۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فل کورٹ میں جائے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ووٹ کے نہ گننے کی تشریح درست نہیں کے نتیجے پر رن اف الیکشن ہی ختم ہوجائے گا، 12 کروڑ کے وزیراعلیٰ کا مسئلہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی ہم مزید فریقین کو سننا چاہتے ہیں، آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ کے کہنے پر ابھی فل کورٹ بنا دیں۔ آپ شاید چاہتے ہیں آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے فل کورٹ بنانی ہے یا نہیں۔اسی دوران عرفان قادر نے کہا کہ مجھے اپنے موکل سے ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ میرٹ پر دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہوگا، ہمارے تمام دلائل فل کورٹ سے متعلق ہیں۔اس سے قبل سماعت کے آغاز میں عدالت نے سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں بار کے کافی صدور یہاں موجود ہیں۔اس پر لطیف آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی نظرثانی درخواستیں زیرالتوا ہیں، موجودہ سیاسی صورتحال بہت گھمبیر ہے، سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے، ہمارے سابق صدور نے میٹنگ کی ہے۔ سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست بھی زیرالتوا ہے، دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دیکر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ذرا کیس کو سیٹ اپ تو کر لینے دیں۔اسی دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس کیس کا براہ راست تعلق ہمارے فیصلے سے ہے، ہم چاہیں گے فریقین ہماری رہنمائی کریں۔ تاہم علی ظفر نے سابق صدور سپریم کورٹ بار کے مطالبے پراعتراض اٹھا دیا اور کہا کہ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔اس دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ ہوا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے پاس کرسی تو ہے ناں۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سر کرسی کی کوئی بات نہیں، کرسی کی پرواہ نہیں کرتا، ہم نے صبح درخواست جمع کروائی تھی اسے بھی سنا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان سب کو سنا جائے گا۔لطیف آفریدی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی زیر التوا ہیں، آئینی بحران سے گریز کیلیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے، سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.