مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں مخلوط حکومت مشکل فیصلے لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار‘سخت فیصلے لینے سے ووٹ بنک متاثر ہوگا نہ لینے سے بدترین ناکامی

حکمران اتحا کو سیاسی محاذ کے ساتھ معاشی میدان میں اس وقت مشکلات حالات کا سامنا ہے‘ملک کا بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے حکومت کو تیل کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے خزانے سے سبسڈی کی صورت میں ماہانہ بنیادوں پر اربوں روپے ادا کرنا پڑ رہے ہیں.برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ

اسلام آباد- پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی سربراہی میں قائم ہونے والی مخلوط حکومت کو سیاسی محاذ کے ساتھ معاشی میدان میں اس وقت مشکلات حالات کا سامنا ہے جس میں خاص کر مہنگائی اور عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں جن کا بوجھ ابھی تک مقامی طور پر صارفین کو منتقل نہیں کیا گیا تاہم اس کے نتیجے میں ملک کا بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے کیونکہ حکومت کو تیل کی قیمتیں کم رکھنے کے لیے خزانے سے سبسڈی کی صورت میں ماہانہ بنیادوں پر اربوں روپے ادا کرنا پڑ رہے ہیں.
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے اتحادی اب تک مشکل معاشی فیصلوں پر گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں وزیر اعظم کی اپنی کابینہ کے اراکین کے ساتھ لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد بھی کوئی واضح حکمت عملی سامنے نہیں آئی کہ حکومت معیشت کے شعبے میں کیا فیصلے کرنے جا رہی ہے. حکومت کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی فنڈنگ کا ہے جو ابھی تک کسی ذریعے سے نہیں ملی آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے تیل و بجلی پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کی شرط رکھی ہے جب کہ سعودی عرب سے وزیر اعظم کے دورے کے باوجود کوئی فنڈنگ ابھی تک پاکستان کو نہیں ملی.
برطانوی نشریاتی ادارے ”بی بی سی“کے مطابق پاکستان میں معیشت اور سیاست کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت سخت معاشی فیصلوں سے کترا رہی ہے جس کا مقصد عوام پر پڑنے والے بوجھ کی صورت میں عوامی غیض و غضب سے بچنا ہے تاہم ان کے مطابق اس کی وجہ سے ملک کو معاشی طور پر بے پناہ نقصان ہو رہا ہے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس ایسا کوئی جواز نہیں کہ وہ اس ساری صورتحال کا الزام سابقہ حکومت پر ڈالے کیوںکہ خراب معاشی صورتحال کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانے سے پہلے سیاسی قیادت کو معلوم تھا کہ معاشی حالات مشکل ہیں اور اس کے لیے سخت فیصلے لینے پڑیں گے.
موجودہ حکومت کو اقتدار منتقل آئے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور پہلے دن سے سب سے بڑا معاشی چیلینج تیل مصنوعات کی قیمتوں کا مسئلہ بنا ہوا ہے سابق وزیراعظم عمران خان نے 28 فروری 2022 کو ملک میں تیل و بجلی کی قیمتوں کو ایک خاص سطح پر منجمد کر دیا تھا اور ان کے اعلان کے مطابق اگلے مالی سال کے بجٹ تک تیل و بجلی کی قیمتیں اس خاص سطح تک برقرار رہیں گی.
موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد تیل کی قیمتوں پر نظرثانی کے تین مواقع پر قیمتوں کو تحریک انصاف کے دور کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا تاہم اس فیصلے کی قیمت اربوں روپے کی سبسڈی کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے حکومتی اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو مارچ کے مہینے میں 33 ارب سے زائد کی سبسڈی، اپریل میں 60 ارب اور مئی کے مہینے میں دی جانے سبسڈی کا تخمینہ 118 ارب لگایا گیا ہے.
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اشفاق تولہ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت کو درپیش سب سے بڑا معاشی فیصلہ تیل کی قیمتوں کو بڑھانے کا ہے انہوں نے کہا قیمتیں بڑھانے کا لینا پڑے گا کیونکہ اس سے خسارہ بڑھ رہا ہے ڈاکٹراشفاق نے کہا حکومت اس سلسلے میں ڈائریکٹ سبسڈی دے اور ان ڈائریکٹ سبسڈی کا سلسلہ بند کرے انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو اس سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو گا تاہم اس کے لیے حکومت کاروباری اداروں کو اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی صورت میں مداوا کر سکتی ہے.
انہوں نے کہا اسی طرح احساس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی دی جانے والی امدادی رقم کو بڑھایا جا سکتا ہے تاکہ پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں اضافے سے ہونے والی مہنگائی کے اثر کو زائل کیا جا سکے انہوں نے کہا آئی ایم ایف یہ دیکھتا ہے کہ آپ کو سبسڈی دے رہے ہیں اور اس کے لیے مطلوبہ فنانسنگ موجود ہے، اگر نہیں ہے تو یہ ملک کے بجٹ میں پرائمری خسارے کا باعث بنتا ہے اسی طرح صوبوں خاص کر پنجاب اور سندھ سے این ایف سی ایوارڈ سے کم رقم لینے کا کہا جائے تاکہ اس خسارے کا کم جا سکے.
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو تیل مصنوعات کی قیمتوں بڑھانے کا فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ اسی صورت پاکستان کو آئی ایم ایف سے پیسے مل سکتے ہیں انہوں نے کہا اگر آئی ایم سے پیسے مل جاتے ہیں تو پھر مقامی طور پر فیصلے لینے ہوں گے جس میں مہنگائی کم کرنے کے لیے پرائس کنٹرول میکنزم بنانا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر مہنگائی کم نہیں کی جا سکتی اشفاق تولہ نے کہا درآمدات پر بھی کنٹرول کرنے کے سخت فیصلے لینے ہوں گے خاص کر درآمدی گاڑیوں پر پابندی لگانا ہو گی جیسا کہ سی بی یو اور سی کے ڈی پر کم ازکم بجٹ تک پابندی لگا دی جائے.
ماہر معاشیات ڈاکٹر عالیہ نے بتایا کہ سخت فیصلے تو لینے ہوں گے لیکن لگتا ہے کہ یہ حکومت اس سلسلے میں غیر سنجیدہ ہے اور حالات کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہے انہوں نے کہا اگر آئی ایم ایف سے پیسے نہیں ملتے تو ملک کی معیشت نہیں چلے گی اسی طرح دوست ممالک سے بھی پاکستان کو مالی معاونت دینے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا جا رہا انہوں نے کہا حکومت کو عوام کو بتانا چاہیے کہ معاشی حقائق کیا ہیں ورنہ ملک اقتصادی طور پر ڈوب جائے گا.
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعتماد میں لیا جائے جیسا کہ تیل و بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے. انہوں نے کہا موجودہ حکومت اس وقت غیر سنجیدہ ہے کیونکہ اگر اسے فیصلہ لینا ہے تو ابھی لے، ورنہ تاخیر سے لیے گئے فیصلوں کو معیشت اور عوام پر بہت منفی اثر ہو گاموجودہ حکومت کی جانب سے سخت معاشی فیصلوں کی صورت میں اس کے لیے سیاسی طور پر مسائل پر بات کرتے ہوئے سیاسی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملکی معیشت کو سیاست کی نظر کر دیا گیا ہے اور کہیں خدا نخواستہ ملک دیوالیہ نہ ہو جائے.
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی یہی اخلاقی کمزوری اس کے معاشی فیصلوں میں رکاوٹ بن رہی ہے ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد تحریک کا عمران کو کم نقصان اور موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کو زیادہ ہوا ہے تاہم ان جماعتوں کا دعوی تھاکہ اگر عمران خان کو ایک سال مل جاتا تو وہ ایسے قوانین پاس کروا لیتے جس میں وہ ان جماعتوں کے راہنماﺅں کو جیل میں ڈال دیتے حزب اقتدار کی موجودہ جماعتوں نے نہیں سوچا کہ عدم اعتماد کے عمران خان کو زیادہ عوامی حمایت حاصل ہونے کی وجہ سے اگر وہ زیادہ اکثریت سے آتے ہیں تو ان کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ درحقیقت حکومت پھنس گئی ہے اور نواز لیگ کا یہ کہنا کہ وہ عمران کے پھیلائے ہوئے گند کا ٹوکرا کیوں اٹھائے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنی رضا مندی سے عدم اعتماد لاکر حکومت سنبھالی ہے تو انہیں یہ ”ٹوکرا“ بھی اٹھانا پڑے گا.

تبصرے بند ہیں.