لاہور (نیوز ڈیسک) امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن مختلف سطح پر ماحولیاتی بحران پر اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل محکمے نے دن کے آغاز میں اعلان کیا تھا کہ آب و ہوا کے لیے خصوصی صدارتی ایلچی جان کیری اس معاملے پر مشاورت کے لیے یکم سے 9 اپریل تک ابوظہبی، نئی دہلی اور ڈھاکہ کا سفر کریں گے۔
تاہم ان کے شیڈول میں اسلام آباد شامل نہیں ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ سابق امریکی وزیر خارجہ اماراتی، بھارتی اور بنگلہ دیشی رہنماؤں کے ساتھ دو بڑی بین الاقوامی تقاریب سے قبل ‘ماحولیاتی تبدیلی’ کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔
ایک بار پھر، بیان میں ان پاکستانی رہنماؤں کا ذکر نہیں کیا گیا جن سے مشاورت کی جائے گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن 22 اور 23 اپریل کو ان میں سے ایک پروگرام، ‘آب و ہوا سے متعلق رہنماؤں کا اجلاس’ کی میزبانی کریں گے۔
اس کے لیے انہوں نے 40 عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا ہے جن میں بھارت، چین اور بنگلہ دیش کے ممالک بھی شامل ہیں تاہم اس میں پاکستان شامل نہیں۔
اقوام متحدہ اس حوالے سے ایک دوسرے پروگرام کا انعقاد کرے گا۔
جب سوال کیا گیا کہ اس حساس معاملے پر پاکسان کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے تو محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ‘ امریکا تعاون کے لیے پاکستان سمیت ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کو شامل کرنا چاہتا ہے’۔
عہدیدار نے وضاحت دی کہ ‘آب و ہوا سے متعلق رہنماؤں کا اجلاس اس سے متعلق کئی اہم تقاریب میں سے صرف ایک ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی عزم کی سطح کو بڑھانے کے لیے حکومت پاکستان اور دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں’۔
پاکستان کی سربراہی کانفرنس سے دستبرداری اور جان کیری کی مشاورتوں کو اسلام آباد میں سختی سے محسوس کیا گیا کیونکہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ خطرے کا سامنا کرنے والے دنیا کے 10 ممالک میں شامل ہے’۔
جان کیری کے ایشیا کے دورے کے دوران پاکستان کو شامل نہ کرنے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ووڈرو ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگل مین نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ‘پہلے پاکستان کو آب و ہوا سے متعلق وائٹ ہاؤس کے عالمی سربراہی اجلاس کے لیے دعوت نامہ نہیں دیا گیا، اب جان کیری مشاورت کے لیے بھارت اور بنگلہ دیش جا رہے ہیں’۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں اس پیش رفت کو درد ناک قرار دیا۔
ان کے تاثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام آباد میں مقیم کینیڈا کی ایک صحافی کیتھی گینن نے کہا کہ وہ اس میں زیادہ بات نہیں کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے بجائے امریکا کے پاس علم کی کمی کی ہے، مجھے لگتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکی کوششوں سے امریکا جان بوجھ کر پاکستان کو الگ نہیں کرے گا، کم از کم ابھی نہیں’۔
تبصرے بند ہیں.