اسلام آباد (سپیشل رپورٹر)سابق جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سپریم کورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس سے قبل دائر درخواست پر ان سے رضامندی کے خط پر زبردستی دستخط کروائے گئے جس کے نتیجے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے وہ پٹیشن 6 فروری 2009 کو خارج کردی تھی۔وکیل توفیق آصف اور شیخ احسان الدین نے سائنسدان کی جانب سے ایک تحریری خط جمع کروایا جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا کہ اس سے قبل پیش کیے جانے والے تصفیے سے متعلق خط پر دستخط کے لیے ان پر دباو¿ تھا۔جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اسٹریٹجک پلاننگ ڈویڑن اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو نوٹسز جاری کرکے انہیں ڈاکٹر عبدالقدیر کی اپیل پر جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل و حرکت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کی درخواست پر سماعت ہوئی، انہوں نے یہ اپیل لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس میں ریاست کی جانب سے سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کے تناظر میں دائرہ اختیار کے فقدان کے باعث ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اپیل کو مسترد کردیا گیا تھا۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پروانہ حاضری ملزم کی درخواست کے فیصلے میں کہا تھا کہ پٹیشنر ایک آزاد شہری ہے اور ساتھ ہی درخواست کو اینکڑیئر-اے کی صورت میں خارج کردیا تھا جس کا مواد فریقین کی درخواست پر پریس کو جاری یا کسی صورت میں منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔چنانچہ گزشتہ روز ہوئی سماعت میں اٹارنی جنرل نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خط کی تحریر پر اعتراض کیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ سے انصاف کی توقع نہیں، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سپریم کورٹ میں نئی درخواست جمع کروانی چاہیے یا عدالت عظمیٰ میں موجودہ درخواست واپس لے کر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی نئی درخواست دائر کرنی چاہیے۔سماعت میں ایڈووکیٹ آصف نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر ان کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بدھ کے روز ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کروائی گئی جس میں انہوں نے ایک خط میرے حوالے کیا۔اپنے خط میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا کہ انہیں کچھ حکام نے عدالت عظمیٰ سے موجودہ درخواست واپس لینے اور دوبارہ اسلام ا?باد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے مجبور کیا، خط میں عدالت عظمیٰ سے ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور انہیں سنوائی کا موقع دینے کی استدعا کی گئی۔خط میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں ’ایس پی ڈی‘ ایجنٹس سپریم کورٹ کی عمارت میں لائے لیکن انہیں کمرہ عدالت میں پیش کرنے کے بجائے مختلف جگہ لے جاتے رہے اور آخر میں انہیں سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کے برابر والے کمرے میں بٹھادیا، ان کا اپنے خط میں کہنا تھا کہ حکومت نے انہیں عدالت میں پیش کرنے سے متعلق عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی اور توہینِ عدالت کی مرتکب ہوئی، خط میں الزام لگایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بغیر ا?زاد نقل و حرکت کے ایک قیدی کی طرح رکھا گیا اور وکیل سمیت کسی سے بھی ملاقات نہیں کروائی گئی جو ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے لاہور ہائی کورٹ کے 25 ستمبر 2019 کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا جس نے ریاست کی جانب سے سیکیورٹی کے خصوصی اقدامات کے تناظر میں دائرہ اختیار کے فقدان کے باعث ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی اپیل کو مسترد کردیا تھا، عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی درخواست میں کہا گیا کہ آزادانہ نقل و حرکت سمیت بنیادی حقوق اور معقول پابندیوں کی آڑ میں کسی کی پسند یا ناپسند کو محدود یا سلب نہیں کیا جاسکتا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک صفحے کی درخواست بھی پیش کی جس میں حکومت کو انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی تا کہ وہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے اپنی بات کہہ سکیں۔درخواست میں بتایا گیا کہ پٹیشنر کو عدالت کے حکم پر ان کے وکیل سے ملاقات کروانے کے لیے سپریم کورٹ کی عمارت میں لایا گیا لیکن عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وکلا سے خصوصی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی اور ملاقات کے دوران انٹیلی جنس ایجنسی کے حکام موجود رہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے عدالت میں اپنی بات کہنے کے لیے ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی اجازت بھی مانگی اور کہا کہ آزاد حیثیت ان کا بنیادی حق ہے کہ کیوں کہ ان کی نقل و حرکت کسی قانون کے تحت نہیں بلکہ بے بنیاد الزامات پر محدود کی گئی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے علمبردار ہیں اور یہ ان امور سے وابستہ لوگوں کی انتھک محنت تھی کہ وہ ملک کو ایٹمی طاقت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کو پڑوسیوں اور مخالفین کی بری نظر سے محفوظ کرنے کے لیے کیے گئے اپنے کام پر فخر محسوس کیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ جب وہ پاکستان آئے تھے انہوں نے جوہری منصوبے پر کام شروع کردیا تھا جبکہ اپنی حیثیت کے مطابق ذاتی سیکیورٹی کا لطف بھی اٹھایا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکار گھر کے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی کی ان تک رسائی نہ ہو۔درخواست کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیکیورٹی حکام کی پیشگی منظوری کے بغیر ملک میں گھومنے پھرنے، کسی سماجی یا تعلیمی تقریب میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں، یہ صورتحال درخواست گزار کو ورچووَل قید میں رکھنے کے مترادف ہے۔
تبصرے بند ہیں.