13 سالہ بیٹی اغوا ہوگئی، پولیس الٹا ہمیں ذلیل کرتی ہے، والدین کی دہائی

لاہور: میری13سالہ بیٹی اقصیٰ جوساتویں جماعت کی طالبہ ہے18ستمبر2012 کی شام 7 بجے اغوا کی گئی مگر اس کا آج تک نہیں پتہ چل سکا۔ پولیس اس کوبرآمد کرنے کے کی کوئی کوشش نہیں کررہی، میں نے اتفاق فونڈری میں بھی چپراسی کی نوکری کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے کزن میاں معراج دین کے ساتھ بھی ڈیوٹی کی ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اپیل ہے کہ میری بچی کو برآمد کرایا جائے۔ مغوی لڑکی کے والد چوکیدار وارث علی شاہ نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کے بعد سے اب تک مجھے خوار ہی کیا جا رہا ہے۔ پولیس کہتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے وہ نکاح نامہ تمھارے منہ پر مارے گی۔ پروگرام میں اقصیٰ کی والدہ عشرت نے بتایا کہ اغوا کے تین ماہ بعد بچی کا فون آیا۔ موبائل فون نمبر ٹریس کرانے کے5ہزار روپے دیے، یہ نمبر بلوچستان کا تھا۔ پولیس نے کہا کہ ہم وہاں نہیں جاسکتے۔ پیسے دے کر دوسرا نمبر ٹریس کرایا تو وہ پاکپتن کا نکلا۔ وہاں چھاپہ مار کر پولیس نے ایک عورت کو گرفتار کیا۔ اس چھاپے کے بھی ہم نے20ہزار روپے دیے۔ اس نے کہاکہ اغوا کرنے والے کے پاس ہزاروں نمبر ہیں، اس کا کام ہی لڑکیوں کو ڈیروں پر پہنچانا ہے۔ اس خاتون کی گرفتاری کے بعد میری بیٹی کا فون آیا تووہ بہت گبھرائی ہوئی تھی اس نے کہاکہ گرفتار عورت کیخلاف کیس واپس لے لو، مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں، ایک دن میں خود ہی واپس آجائوں گی، میں نے اس سے پوچھا کہ اگر تم نے شادی کرلی ہے توبتادے مگراس نے فون بندکردیا، صوبائی وزیر انسانی حقوق طاہر خلیل سندھو نے کہا کہ یہ سب سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں۔ کریمنل جسٹس سسٹم میں بہت سی تبدیلیوں کو ضرورت ہے۔ تفتیش کا نظام فرسودہ ہے، والدین کو مزید دکھی کیا جاتا ہے۔ بچیوں کی بازیابی کیلیے درد دل رکھنے والے پولیس افسروں کی ڈیوٹی لگانی چاہیے۔ اس دھندے کو روکنے کیلیے بین الصوبائی رابطوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں تھانہ کلچر ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو کابینہ کے اجلاس میں اٹھائیں گے۔ وارث سے دستاویزات لیں گے اور اس کو اپنا نمبر دیں گے۔ وہ ان کے دفتر بھی آسکتا ہے۔ اگر پولیس اہلکاروں نے ان سے پیسے لیے ہیں تو ان کے خلاف محکمانہ اور دوسری کارروائی کریں گے۔ پنجاب پولیس کے ترجمان نایاب حیدر نے کہا کہ پولیس کو جو معلومات اور سراغ ملتے ہیں وہ اس کے مطابق پوری کارروائی کرتی ہے۔ زیادہ تر بچیاں اپنی مرضی سے چلی جاتی ہیں۔ صرف کچھ ہی بچیاں اغوا ہوتی ہیں۔لڑکیوں کی برآمدگی میں لاہور پولیس کی کارکردگی سب سے اچھی ہے ۔ اس موقع پر میزبان عمران خان کی جانب سے یہ کہنے کہ وہ بتاسکتے ہیں کہ100 بچیاں ابھی برآمد نہیں ہوئیں پر نایاب حیدر نے کہا کہ وہ نشاندہی کریں پولیس کارروائی کرے گی اور نتائج سے بھی آگاہ کرے گی۔ پولیس کی جانب سے پیسے لینے کی بات پر انھوں نے کہا کہ ایسے کیسوں میں پولیس نرم دلی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ ڈیٹا نکلوانے یا چھاپہ مارنے کے پیسے لیے جائیں تاہم اگر یہ کہہ رہے ہیں تو ان کو سی سی پی او آفس بھیجیں انکوائری کراکر ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔ اس پر میزبان عمران خان نے کہا کہ وہ خود ان دونوں کو لے کر صبح سی سی پی او آفس جائیں گے۔ انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ غریب ایسے کیس کی پیروی نہیں کرسکتے، دھکے کھاتے ہیں اور انہیں انصاف نہیں ملتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں قانون اور سیکیورٹی فورسز کا عمل دخل نہیں ہے۔ ایسے گروہوں کو جو پورے ملک میں ایک مافیا کی طرح کام کر رہے ہیں کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے علاقے کھیتران کے سردار خالد خان نے کہا کہ اس مکروہ دھندے کو روکنا حکومت کا کام ہے۔ پنجاب اور بلوچستان حکومت کو مل کر اس دھندے کو ختم کرانا چاہیے۔ اگر حکومت مخلص ہو تو وہ اپنی رٹ قائم کرسکتی ہے۔ ہمارا توہر وقت مطالبہ کہ اغواکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انھوں نے کہا ان سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرتے رہتے ہیں اور انھوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے کئی بچیوں کو برآمد بھی کرایا ہے۔

تبصرے بند ہیں.