بجٹ منظوری سے قبل ٹیکس کیسے لیاجاسکتا ہے، چیف جسٹس

اسلام آ باد: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ بجٹ منظوری سے قبل ٹیکس کیسے لیاجاسکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قمیتوں پرایک فیصد جنرل سیلزٹیکس کے نفاذ کےازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ نہ بجٹ منظور ہوا نہ صدر نے دستخط کیے پھر حکومت نے پہلے ہی سیلزٹیکس اضافہ کیسے لینا شروع کردیا ، حکومت کو ٹیکس لگانے کا اختیار ہے مگر فنانس بل کی منظوری سے قبل ٹیکس کا نفاذ کیسے کیا جا سکتا ہے، سیلزٹیکس میں اضافہ ابھی تجویز کیا گیا ہے اور پارلیمنٹ نے ابھی اس کی منظوری دینی ہے ،ہم ایف بی آر کے اس نوٹی فکیشن کو معطل کردیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام تو پہلے ہی مہنگائی پر شور مچارہے ہیں اس طرح سیلز ٹیکس میں اضافے اور عملدرآمد کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے جس پر اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ ٹیکس ایکٹ کے تحت پیشگی ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے، یہ ایکٹ آئین سے بالاتر نہیں ،ٹیکس کے فوری نفاذ کا فیصلہ ذخیر ہ اندوزی کو روکنا تھا، جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ ذخیر ہ اندوزی روکنا صوبائی معاملہ ہے ایف بی آر کا اس سے کیا تعلق ہے، اربوں روپے لوگوں کی جیبوں سے نکل گئے، بادی النظر میں ٹیکس کا قبل از وقت نفاذ غیر آئینی ہے اس سے لوگوں پر بوجھ بڑھے گا، قانون کے بغیر ٹیکس نہیں لیا جا سکتا۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ چھوٹی برائی کو روکنے کے لیے بڑی برائی کا سہارا لیا گیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ماضی میں بھی پیشگی ٹیکس لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ماضی میں ایسا ہوا ہے تو وہ رقم بھی واپس لی جائے، ان کا کہنا تھا کہ پٹرول مہنگا ہونے سے ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے، بتایا جائے کہ ٹیکس کے نفاذ سے کتنی رقم وصول ہوئی، عدالت نے ایف بی آرسے فوری طورپرمتعلقہ نوٹیفکیشن کی نقل طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی۔

تبصرے بند ہیں.