منیر نیازی انسانی رویوں کا شاعر

انسانی رویوں کا شاعر، مخصوص لب ولہجہ اور انداز ادائیگی کا کمال، منیر نیازی مرحوم کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں زباں زد عام کلام نصیب ہوا۔

لاہور: ( بھارت کے ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والے منیر نیازی پاکستان بننے کے بعد لاہور آ گئے۔ جمالیات کے ترجمان منیر نیازی جن کی دیر بھی مشہور ہوئی اور مداحوں کو ان کا خوف بھی خوبصورت لگا۔ اردو شاعری کے تیرہ، پنجابی کے تین اور انگریزی کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ منیر نیازی نے جنگل سے وابستہ علامات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے استعمال کیا۔ انہوں نے جدید انسان کے روحانی خوف اور نفسی کرب کے اظہار کے لیے چڑیل اور چیل ایسی علامات استعمال کیں۔ منیر نیازی کی شاعری ایک طویل جلا وطنی کے بعد وطن کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے اور بھولے ہوئے گم شدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایک غیر معمولی صلاحیت ہے۔ منیر مسافر بھی ہے تو شام کا مسافر۔ کہتے ہیں سفر وسیلہ ظفر ہے۔ منیر کے ہاں تو سفر وسیلۂ خبر ہے، نامعلوم کی خبر۔ منیر نیازی ان خوش قسمت اہل فن میں سے تھے جنہیں ان کی زندگی میں ایک بڑا شاعر مانا گیا۔ چھبیس دسمبر سنہ 2006ء کو منیر نیازی کسی اور جہاں نکل گئے۔ ”ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو، میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا”۔

تبصرے بند ہیں.