دیت کی ادائیگی کا جواز، قتل کے مقدمات میں مصالحت بڑھنے لگی

امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کا دیت کی رقم ادا کرکے سزائے موت سے بچ نکلنا قتل کے مقدمات کے لیے غلط مثال بن گیا۔ دیت کی ادائیگی کے اس واقعے کے بعد قتل جیسے گھنائونے جرم کے مقدمات میں مصالحت کا رجحان بڑھنے لگا ہے، مقتولین کے ورثا انصاف کیلیے واویلا اور احتجاج تو کرتے ہیں لیکن جب مقدمات چلنے لگتے ہیں تو خاموشی سے رقم لیکر یا دبائو میں مصالحت کی درخواست دائر کرکے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی مثال پیش کرتے ہیں جبکہ اس معاملے میں پاکستان پینل کوڈکی ایکٹ311 میں واضح ہے کہ مصالحت کے باوجود اگر قاضی (جج) دیکھے کہ مقدمے میں فساد فی الارض کا عنصر موجود ہے تو وہ مصالحت کے باجود مجرم کو سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے، معاشرے پر قتل کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصالحت کے عمل کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار قاضی (جج) کو ہے، تفصیلات کے مطابق عدالتوں میں قتل جیسے گھنائونے جرم میں مصالحت کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، مقتولین کے ورثا یا لواحقین عدالت کے باہر رقم وصول کرکے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے مجرم کو فی سبیل اﷲ معاف کرنے کی درخواست دیتے ہیں اس طرح کے کئی مقدمات میں مجرم رہا ہوچکے اور درجنوں مقدمات میں مصالحت کی درخواستیں زیر سماعت ہیں۔جن مقدمات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ملوث ہیں ان میں لواحقین پر دوران مقدمہ بے تحاشہ دبائو ہوتا ہے، قائد آباد میں واقع مدرسے کے عالم کو معمولی تلخ کلامی پر ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا اور احتجاج پر ایف سی اہلکار گرفتار ہوئے مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر کی عدالت میں پیش ہوا ، چند روز بعد مقتول کے ورثا اور ملزمان میں معاملہ طے پاگیا اور مدعی نے مصالحت کی درخواست دیکر مجرموں کو معاف کردیا بعدازاں عدالت نے ملزمان کو رہا کردیا، 19مئی کو مسماۃ عامرہ ناصر نے اپنے شوہر ناصر احمد کو قتل کردیا تھا تفتیش کے بعد شواہد عدالت میں پیش ہوئے2 ماہ قبل مقتول کے ورثا نے مصالحت کی درخواست دائر کی جس میں ملزمہ کو اﷲ کے وسطے معاف کرنے کا موقف اختیار کیا گیا جبکہ اصل میں عدالت کے باہر ان کے درمیان معاملہ مقتول کی جائیداد اور بچوں سے محروم ہونے کا طے پایا ہے جس پر فی الحال ملزمہ راضی نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.