نئی حکومت کو فوری طور پر 3 بڑے معاشی چیلنجز درپیش

کراچی: 11مئی کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کو اقتدار سنبھالتے ہی3بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو جون کے آخر تک آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرض کی قسط کے طور پر ایک ارب ڈالر لوٹانے ہیں،کسی مناسب تیاری کے بغیر آئندہ برس کیلیے بجٹ پیش کرنا ہے اور توانائی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران کا مقابلہ کرنا ہے۔ بی بی سی کے مطابق معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ تینوں مسائل کا فوری حل کسی عالمی مالیاتی ادارے یا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہد ے سے ہی ممکن ہو سکتاہے جس کے لیے موجودہ نگراں حکومت نے کچھ ابتدائی کام کربھی لیا ہے۔ معاشی ماہرین ایک تجویز اور بھی دی ہے کہ اگر کسی دوست یا برادر ملک سے چند ارب ڈالر مل جائیں تو بھی مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے حاصل کردہ 10ارب ڈالر میں سے 2ارب ڈالر آئندہ 6ماہ میں لوٹانے ہیں لیکن قومی خزانہ اتنا بوجھ اٹھانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ معاشی ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق پاکستان کے خزانے میں اتنی رقم نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کی جاسکیں۔ موجودہ سال کے ختم ہوتے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پاس ساڑھے 3سے 4چار ارب ڈالر ہوں گے۔ ایسے میں آئی ایم ایف کو ادائیگی کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق کے مطابق حکومت کو مسند اقتدار سنبھالتے ہی ملک کے لیے ایک عدد بجٹ بھی بنا کر دینا ہوگا۔ یہ کوئی عام بجٹ نہیں ہوگا ۔ یہ بجٹ نئی حکومت کی معاشی ترجیحات کا بیان ہوگا۔ اس لیے یہ بہانہ ہر گز نہیں چلے گا کہ ہمیں بجٹ بنانے کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ تمام مسائل کا فوری حل تو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے میں ہی موجود ہے۔ اس طرح حکومت کو سانس لینے کا وقت مل جائے گا، معاشی اصلاحات کا ایجنڈا بھی بن سکے گااور بجٹ کی تیاری میں بھی آئی ایم اف کی مدد لی جاسکے گی لیکن آئی ایم ایف پاکستانی عوام کا پسندیدہ ادارہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں کسی دوست یا برادر ملک سے چند ارب ڈالر مل جائیں تو بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.