مسائل حل نہ ہوئے تو تاجر ٹیکس قوانین سے بغاوت کر سکتے ہیں، صوبوں کا وفاق کو انتباہ

صوبوں نے وفاق کو متنبہ کیا ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی طرف سے سیلز ٹیکس سے متعلقہ مسائل بروقت حل نہ کیے گئے تو تاجروں کی طرف سے ٹیکس قوانین سے بغاوت کا خطرہ ہے اور ملک میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی۔جس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافے کیلیے کی جانیوالی حکومتی کوششیں بھی بے سود ثابت ہونگی۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی(پی آر اے) کی طرف سے وزارت خزانہ کو لیٹر لکھا ہے جس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی نے سروسز پر سیلز ٹیکس کے نفاذ اور وصولی کا اختیار صوبوں کو دینے کے بعد ایف بی آر کی طرف سے صوبوں کیلیے پیدا کیے جانیوالے مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے اور وفاق سے ان مسائل کے حل کیلیے مدد طلب کی ہے۔ لیٹر میں لکھا گیا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی اور سندھ ریونیو بورڈ ان مسائل کے حل کیلیے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے ایف بی آر کو درخواستیں کررہا ہے مگر ایف بی آر کی طرف سے نہ صرف ان مسائل کے حل کیلیے کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ رواں مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ میں ایف بی آر نے صوبوں کی مشاورت کے بغیر ہی انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے حوالے سے ایسے ریونیو اقدام اٹھائے ہیں جن سے صوبوں کے ریونیو پر براہ راست منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ایف بی آر کے ان اقدامات سے صوبوں میں وصولیاں متاثر ہورہی ہیں۔لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران صرف پنجاب ریونیو اتھارٹی(پی آر اے) کو ایف بی آر کے ان اقدامات کے نتیجے میں ریونیو کی مد میں مجموعی طور پر 16.4 ارب روپے کا نقصان ہوگا لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی طرح رواں مالی سال کے بجٹ میں ایف بی آر کی طرف سے بجلی اور گیس کے مختلف کٹیگریز کے بجلی اور گیس کے صنعتی و کمرشل صارفین پر پانچ فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے اس کے علاوہ جو لوگ ایف بی آر کے پاس ان رجسٹرڈ ہونگے ان پر مزید ایک فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے لیٹر میں وفاق سے شکایت کی گئی ہے کہ ایف بی آر کے اس اقدام سے بھی پنجاب ریونیو اتھارٹی کو نقصان ہوا ہے کیونکہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کے پاس مختلف کٹیگریز کے بہت سے ایسے ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ ہیں۔ جنکے لیے قانونی طور پر ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن پنجاب ریونیو اتھارٹی کے پاس رجسٹرڈ ان ٹیکس دہندگان کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو پانچ فیصد اضافی اور ایک فیصد مزید ٹیکس وصول کرنے کیلیے ایف بی آر کے پاس ان رجسٹرڈ قرار دے رہا ہے جس سے پی آر اے کے پاس رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان مُشکلات کا شکار ہیں اور ایف بی آر کی طرف سے غلط اقدامات اٹھانے کی وجہ سے ملک میں ٹیکس دہندگان ڈبل ٹیکسین کا شکار ہیں اور ایف بی آر کے پیدا کردہ ان مسائل کی وجہ سے ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس دہندگان کے ریفنڈ کلیمز بھی مسترد کیے جارہے ہیں لیٹر میں لکھا گیا ہے کہ ایف بی آر چونکہ ان مسائل کے حل پر توجہ نہیں دے رہا ہے اس لیے وزارت خزانہ سے درخواست کی جاتی ہے۔ وہ معاملے کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے خود مداخلت کرے اور یہ مسائل حل کروائے کیونکہ اگر یہ مسائل بروقت حل نہ کیے تو اس سے ایک طرف تو ملک میں سرمایہ کاری کیلیے ماحول متاثر ہوگا اور ٹیکس دہندگان مسلسل استحصال اور مسائل کا شکار رہیں گے۔ لیٹر میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ تاجر برادری کی طرف سے مسلسل مسائل کا شکار رہنے کی وجہ سے ردعمل کے طور پر ملک کے ٹیکس قوانین کی عدم تعمیل کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کے بہت خطرناک نتائج ہونگے جبکہ طویل مدت میں ملک کی قومی معیشت متاثر ہوگی اور حکومت کی طرف سے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے کیلیے کی جانیوالی حکومتی کوششوں کو دھچکا پہنچے گا لہٰذا معاملے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ مسائل کو فوری طور پر حل کیا جائے

تبصرے بند ہیں.